کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 405
حضرت امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے حضرت عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ سے ان الفاظ کی تفسیر پوچھی توانہوں نے عمل کر کے دکھایا کہ اپنے چہرے اورسرکوڈھانپ لیااورصرف اپنی بائیں آنکھ کوکھلا رہنے دیا ۔ [تفسیرابن جریر ،ص: ۲۲،ج ۲۹] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ آیت حجاب کے نزول سے قبل عورتیں جلباب کے بغیرگھروں سے باہرنکلاکرتی تھیں اورمردان کے چہرے اورہاتھ دیکھتے تھے اوراس وقت عورت کے لئے جائز تھا کہ وہ اپنے چہرے اورہاتھوں کوننگا رکھے اوراس وقت ان اعضا پرمرد کی نگاہ پڑنا بھی جائز تھا، پھرجب اللہ تعالیٰ نے پردے کے احکام نازل فرمائے توعورتوں نے مردوں سے مکمل حجاب اختیار کرلیا ۔ [حجاب المرأۃ ولبا سہافی الصلوٰۃ] بعض اہل علم کاخیال ہے کہ اس آیت سے مراد گھونگھٹ نکالنا نہیں بلکہ ’’بکل مارنا‘‘ہے۔ اس توجیہ میں جوکچھ ہے وہ سب کو معلوم ہے، تاہم توجیہ عقل ونقل کے خلاف ہے کیونکہ یہ آیت سورۂ احزاب کی ہے جو۵ہجری میں نازل ہوئی اورواقعۂ افک شوال ۶ہجری میں پیش آیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتیں ہیں کہ ’’میں اسی جگہ بیٹھی رہی ،اتنے میں میری آنکھ لگ گئی، ایک شخص صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ اس مقام پر آئے اوردیکھا کہ کوئی سورہا ہے اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ حجاب کاحکم اترنے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا تھا اس نے مجھے دیکھ کر ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘پڑھا تومیری آنکھ کھل گئی ،میں نے فوراًاپناچہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا۔ [صحیح بخاری ،المغاری :۴۱۴۱] اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ صحابیاتlکے ہاں چہرے کاپردہ رائج تھا حتٰی کہ حالت احرام میں بھی ازواج مطہرات اورعام خواتین اسلام نقاب کے بغیر اپنے چہروں کواجانب سے چھپاتی تھیں، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’سوار ہمارے قریب سے گزرتے تھے اورہم عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حالت احرام میں ہوتی تھیں ،جب وہ لوگ ہمارے سامنے آجاتے توہم اپنی چادر یں اپنے سروں کی طرف سے اپنے چہروں پر ڈال لیتیں اورجب وہ گزرجاتے توچہرہ کھول لیتی تھیں۔ [ابوداؤد، المناسک :۸۳۳] حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے متعلق بھی احادیث میں ہے کہ وہ احرام کی حالت میں اپنے چہرے کو اجانب سے ڈھانپ کررکھاکرتی تھیں ۔ [مستدرک حاکم، ص: ۴۵۴،ج ۱] درج بالاحقائق کے پیش نظر اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ شریعت اسلامیہ میں عورت کے لئے چہرے کواجانب سے مستور رکھنے کاحکم ہے اوراس پر خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے عمل کیاجارہا ہے اورعورتوں کے لئے ایسے کرناقرآن کریم کی تجویز ہے۔ سوال کے آخر میں بڑی عجیب بات کہی گئی ہے کہ کسی چیز کی فرضیت سے، اس لئے انکار کردیا جائے کہ اس کے ترک سے اکثریت جہنمی قرارپاتی ہے۔بجائے اس کے کہ اپنی بدعملی کاعلاج کیا جائے اورکوتاہی کی اصلاح کی جائے الٹا اس کی فرضیت سے ہی انکار کیا جارہا ہے۔ کل کوئی منچلا اٹھے گا اورکہہ دے گا کہ نماز فرض نہیں ہے کیونکہ اس کے ترک سے اکثریت جہنمی ہوناقرارپاتی ہے۔ مختصر یہ کہ چہر ہ کاپردہ فرض ہے اورقرآن کریم ،احادیث نبویہ اورتعامل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کایہی تقاضا ہے۔ [واللہ اعلم ]