کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 402
سوال: عام طورپر کہاجاتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کوثابت کیا ہے، لہٰذا سنت طریقہ یہی ہے کہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا جائے اس کی وضاحت فرمائیں؟ جواب: امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں مصافحہ سے متعلق ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے جس میں اس کا طریقہ نہیں بلکہ مشروعیت کوبیان کیا ہے۔ شارح صحیح بخاری ،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مصافحہ کی تعریف بایں الفاظ کرتے ہیں کہ ایک ہتھیلی کودوسرے ہاتھ کی ہتھیلی سے ملایاجائے۔ [فتح الباری، ص: ۶۶،ج۱۱] عربی زبان میں ’’صفحہ‘‘ہاتھ کی ہتھیلی کوکہتے ہیں ۔اس لفظ سے مصافحہ بناہے جو باب مفاعلہ ہے اورمشارکت کاتقاضاکرتا ہے، یعنی دوہتھیلیوں کااس عمل میں شریک ہونامصافحہ کہلاتا ہے ۔چنانچہ لسان العرب میں ہے کہ مصافحہ ،ہاتھ پکڑنے کو کہتے ہیں۔ جب ایک آدمی کسی دوسرے سے مصافحہ کرتا ہے تواپنے ہاتھ کی ہتھیلی کواس کے ہاتھ کی ہتھیلی میں رکھ دیتا ہے۔ (ص: ۵۱۴، ج۲) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب میں دومعلق اوردوموصول احادیث بیان کی ہیں۔ جن کی تفصیل حسب ذیل ہیں : ٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بایں حالت تشہد کی تعلیم دی کہ میری ہتھیلی آپ کی دونوں ہتھیلیوں میں تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے مصافحہ بالیدین کوثابت کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ حدیث ملاقات کے وقت مصافحہ سے متعلق نہیں، بلکہ یہ تعلیم کے اہتمام سے تعلق رکھتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ مصنف ہدایہ نے اس حدیث کونماز کے بیان میں ذکرکیاہے اورحاشیہ میں اس کی وجہ بایں الفاظ بیان کی ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ، اس لئے تھاما تاکہ ان کادماغ حاضر رہے اورالتحیات کی تعلیم دیتے وقت کوئی چیز رہ نہ جائے۔ [حاشیہ نمبر۷ ہدایہ، ص: ۹۳، ج۱] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام طورپرعادت مبارکہ تھی کہ دوران تعلیم مخاطب کاہاتھ پکڑلیتے تھے، جیسا کہ حضرت ابوقتادہ اور ابو دھماء کہتے ہیں کہ ہم ایک دیہاتی کے پاس آئے اوراس نے ہمیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ میراہاتھ پکڑا اورمجھے اس علم سے کچھ سکھانے لگے جواللہ تعالیٰ نے انہیں عطافرمایا تھا۔ [مسندامام احمد، حدیث نمبر:۲۰۶۲۴] پھر اگر اس حدیث کومصافحہ کے طریقہ کے لئے بطوردلیل تسلیم کرلیاجائے تو اس کامطلب یہ ہوگا کہ بڑاآدمی دونوں ہاتھوں سے اورچھوٹاآدمی ایک ہاتھ سے مصافحہ کرے، حالانکہ اس انداز کوکوئی بھی پسند نہیں کرتا ،لہٰذااس حدیث کامصافحہ کے طریقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ٭ امام بخاری رحمہ اللہ مصافحہ کی مشروعیت کوثابت کرنے کے لئے دوسراواقعہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کابیان کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف فرماتھے۔حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے میرے پاس آئے انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور (میری توبہ قبول ہونے پر) مجھے مبارک باددی ۔امام بخاری رحمہ اللہ کامقصدیہ ہے کہ ان دونوں واقعات میں ملاقات کامصافحہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کاہے اورحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کاتعلم کے دوران ہاتھ تھامنا ملاقات کامصافحہ نہیں ہے۔ ٭ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مصافحہ کا رواج تھا توآپ نے جواب دیا کہ ہاں۔ [صحیح بخاری، الاستیذان: ۶۲۶۳]