کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 401
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے ’’تم اپنی اولاد کے لئے اچھے نام کاانتخاب کیا کرو۔‘‘ [ابوداؤد،الادب: ۴۹۴۸] اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ نام وہ ہیں جن میں اللہ یارحمن کے لئے عبودیت کااظہار ہو، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کو عبداللہ اورعبدالرحمن نام بہت پسند ہیں۔‘‘ [صحیح مسلم، الادب: ۵۵۸۷] اسی طرح وہ نام جن میں بندے کی عبودیت کااللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت کی طرف انتساب ہو، جیسا کہ عبدالسلام،عبدالرحیم اورعبدالقدوس وغیرہ۔ حضرات انبیا کے نام بھی اللہ کے ہاں اچھے نام ہیں۔ حدیث میں بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اپنی اولاد کے لئے انبیا کے نام تجویز کیا کرو۔‘‘ [ابوداؤد، الادب: ۴۹۵۰] اسلاف میں جونیک سیرت اوراچھے کردارکے حامل لوگ ہوں ان کے نام بھی تجویز کئے جاسکتے ہیں، جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے کہ ’’تم سے پہلے لوگ حضرات انبیا اور صالحین کے ناموں کے مطابق اپنی اولاد کے نام رکھتے تھے۔‘‘ [صحیح مسلم، الادب: ۵۵۹۸] ان حقائق کے پیش نظر حمنہ ایک اسلامی نام ہے اوراپنی بچیوں کانام رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ ٭ چھوٹے بچوں کی تفریح طبع یاگھرکی زینت کے لئے پرندوں کوگھرمیں رکھا جا سکتا ہے، بشرطیکہ ان کے حقوق کاپوراپورا خیال رکھا جائے، جیساکہ حدیث میں بیان ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کاایک ابوعمیرنامی مادری بھائی تھا۔ جس نے اپنے گھر میں نغیرنامی ایک سرخ چڑیا رکھی تھی جوکسی وجہ سے مرگئی توابوعمیر بہت پریشان ہوئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھرجاتے تو ابوعمیر سے مخاطب ہوکر فرماتے: ’’اے ابوعمیر! نغیر کو کیا ہوا۔‘‘ [صحیح بخاری :۶۲۰۳] بخاری میں یہ وضاحت ہے کہ ابوعمیرنے یہ پرندہ محض تفریح طبع کے لئے رکھاتھا ۔اگرکبوتروں کواپنے گھرمیں زینت اوربچوں کے دل بہلانے کے لئے رکھاجائے توحدیث بالا کے پیش نظر اس کی گنجائش ہے لیکن انہیں اڑانے اورشرط لگانے کے لئے رکھنا ناجائزہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کودیکھا جوکبوتروں کے پیچھے پیچھے بھاگ رہاتھا آپ نے فرمایا کہ ’’ایک شیطان ہے جو مادہ شیطان کے پیچھے بھاگ رہاہے۔‘‘ [مسندامام احمد:۲/۴۵۲] امام ابوداؤد اورامام ابن ماجہ نے اس حدیث پربایں الفاظ عنوان قائم کیاہے: ’’کبوتروں سے کھیلنا۔‘‘ ابن ماجہ میں مختلف صحابہ کرام سے اس کی کراہت کے متعلق متعدد احادیث ہیں ۔( ۳۷۶۴،۳۷۶۵،۳۷۶۷)ان کے پیش نظر انسان کواس قسم کے فضول شوق سے اجتناب کرناچاہیے ۔ ٭ مسجد میں اگر منبر موجودہے توخطبہ جمعتہ المبارک اس پرکھڑے ہوکردیاجائے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی عمل مسنون ہے ۔ اگرمسجد میں اس کا اہتمام نہیں توسنت کے احیا کے پیش نظر اس کاانتظام کرناچاہیے ۔ لیکن صور ت مسئولہ میں یہ حرکت انتہائی معیوب ہے کہ منبر کی موجودگی میں خطبہ کے لئے اسے استعمال نہ کیا جائے، البتہ دوسرے خطبہ کے آغاز میں چندمنٹ تک منبر پربیٹھاجائے ۔اس طرح خطبہ تو ہوجاتا ہے لیکن یہ اندازمحض تکلف اورغیرمسنون ہے۔ [واللہ اعلم]