کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 400
نسائی اورابوداؤد میں ہے کہ اسے سیاہ رنگ سے دور رکھو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاامروجوب کے لئے ہے جس کی خلاف ورزی حرام ہوتی ہے ۔چنانچہ علامہ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ سیاہ رنگ خضاب حرام ہے۔ [شرح نووی، ص: ۱۹۹،ج۲] محدثین کرام نے بالوں کوسیاہ کرناکبائر سے بتایاہے اورایساکرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہوتا ہے۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس نے سیا ہ رنگ کاخضاب کیا،قیامت کے دن اسے رو سیاہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘ [مجمع الزوائد، ص: ۱۴۴،ج۵] اگرسیاہ مہندی کی ملاوٹ سے رنگت گہری سرخ ہوجاتی ہے بالکل سیاہ نہیں ہوتی توا س میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔اسی طرح آج کل بازار سے کچھ ٹیوبیں بھی دستیاب ہیں ۔رنگت کے اعتبارسے ان کے خاص نمبر ہیں ،ان کے لگانے سے سب بال سیاہ ہوجاتے ہیں ان کے استعمال سے بھی اجتناب کرناچاہیے۔ اگرچہ ہمارے نامور علما انہیں استعمال کرتے ہیں ۔ [واللہ اعلم] سوال: پسرور سے شفیق الرحمن اسلم لکھتے ہیں: ٭ حمنہ کے لغوی معنی کیاہیں ،کیایہ نام اسلامی ہے بعض حضرات اس نام کوصحیح خیال نہیں کرتے؟ ٭ گھرمیں کبوتررکھناشرعاًکیساہے کیا انہیں اڑانا ناجائز ہے؟ ٭ اگرمنبر موجودہوتوکیااس کے بغیرخطبہ دیاجاسکتا ہے ،ہمارے ہاں سالہاسال سے یہ طریقہ ہے کہ منبر کی موجودگی میں خطبہ نیچے کھڑے ہوکر دیاجاتا ہے صرف دوسرے خطبہ کے لئے چندمنٹ منبرپر بیٹھاجاتاہے ؟ جواب: عربی لغت کے اعتبار سے ہروہ چیزجس میں سیاہ اورچھوٹے ہونے کاوصف پایاجائے اسے ’’حمن‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس کی تانیث حمنہ ہے، چنانچہ علاقہ طائف میں پائے جانے والی سیاہ انگوروں کی ایک خاص قسم بڑے سیاہ دانوں میں چھوٹے چھوٹے سیاہ دانے، سیاہ چیونٹی ،جوں اورحیوانات کے جسم سے لگی ہوئی چچڑی کوعربی میں ’’حمنہ‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس وضاحت کے بعد حمنہ ایک جلیل القدر صحابیہ ہیں ۔جن کے ذریعے استحاضہ کے متعدد مسائل سے اس امت کومعلومات حاصل ہوئی ہیں کہ ان کی ایک ہمشیرہ حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ تھیں جن کے نیک اورپارساہونے کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے گواہی دی ہے۔ اس بنا پرکسی بچی کانام حمنہ رکھاجاسکتا ہے ۔اس میں شرعاًکوئی قباحت نہیں ہے۔ایسے ناموں کے متعلق لغوی کھوج لگاناتحصیل لاحاصل اوربے سود ہے ۔کیونکہ ان کی معنویت ان کے حاملین کے کردارمیں ہے، جیساکہ حضرت معاویہ اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے متعلق لغوی مفہوم کی کریدکرنادرست نہیں ہے۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کونام اور کام کی وجہ سے اپنی نگاہوں سے روپوش رہنے کی تلقین فرمائی تھی ۔لیکن ہمارے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق حسن ظن کاتقاضایہی ہے کہ ہم اپنے دلوں میں ان کے متعلق محبت اورالفت کے جذبات رکھیں اورکسی بھی پہلوسے ان کے متعلق نفرت کااظہارنہ ہو۔چونکہ حضرت حمنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پرتہمت لگانے والوں میں شریک تھیں ۔اس لئے کچھ حضرات اس نام سے تکدرمحسوس کرتے ہیں ۔ہمارے نزدیک ایسارویہ درست نہیں ہے کیونکہ سزا اور توبہ کے متعلق جرم کی نوعیت ختم ہوجاتی ہے ۔ویسے انسان کے نام کااس کی شخصیت کے ساتھ گہراتعلق ہوتاہے۔اس کے علاوہ اخلاق و کردار پربھی نام اثر انداز ہوتا ہے، نیزقیامت کے دن انسان کواس کے نام مع ولدیت آوازدی جائے گی، اس لئے رسول