کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 393
یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم اورحدیث ایک مکمل شریعت ہے جس کی تکمیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں ہوئی۔اسے کسی قسم کی پیوند کاری کی ضرورت نہیں ہے اوریہ مکمل دین قیامت تک کے لئے ہے۔ہمارے نزدیک دین اورشریعت کاکوئی مسئلہ نہیں ہے جس کا نصًا یااشارۃً اقتضائے قرآن وحدیث میں ذکر نہ ہو۔اگرکوئی ہے تواسے پیش کیاجائے ۔ دیدہ و باید [واللہ اعلم] سوال: عقیقہ کے متعلق مندرجہ ذیل سوالات کے جواب درکار ہیں۔ ٭ کیا عقیقہ کاجانور دودانتہ ہوناضروری ہے اگر گائے وغیرہ کاعقیقہ دینا ہوتو کیا اس میں سات حصے ہوسکتے ہیں ؟ ٭ اس کاگوشت محلے میں تقسیم کرنا چاہیے یااسے کسی دینی مدرسہ میں بھیج دیاجائے ؟ جواب: عقیقہ کے متعلق حدیث میں ہے کہ لڑکے کی طرف سے دوبکریاں اورلڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے۔ [ابوداؤد، الاضاحی: ۲۸۳۴] لفظ شاتین کے مطلق طورپر ذکر سے یہ استدلال کیاگیا ہے کہ عقیقہ کے جانور میں وہ شرائط عائد نہیں کی جائیں گی جوقربانی کے جانور میں ہیں اوریہی بات برحق ہے۔ [نیل الاوطار، ص: ۵۰۱ج۳] علامہ عبدالرحمن مبار ک پوری لکھتے ہیں کہ کسی بھی صحیح حدیث سے عقیقہ کے جانور میں قربانی کی شرائط عائد کرنا ثابت نہیں ہوتا، بلکہ کسی ضعیف حدیث سے بھی ان شرائط کاثبوت نہیں ملتا جو حضرات شرائط لگاتے ہیں ان کے پاس قیاس کے علاوہ اورکوئی دلیل نہیں ہے۔ [تحفت الاحوذی، ص: ۹۹، ج۵] البتہ ایک روایت میں شَاتَانِ مُکَافِئَتَانِ کے الفاظ ہیں جوہم عمر دو بکریوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ [امام احمد، ص :۳۸۱، ج۶] یہ شرط اس با ت کی متقاضی ہے کہ شریعت کوعقیقہ میں ایسا جانور مطلوب ہے جو نقائص وعیوب سے پاک ہو۔ [مغنی لابن قدامہ، ص: ۳۹۹، ج۱۳] گائے کوعقیقہ کے طور پر ذبح کرنے کے متعلق درج ذیل حدیث پیش کی جاتی ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’نومولود کی طرف سے اونٹ، گائے اور بکری وغیرہ کاعقیقہ دیاجائے۔‘‘ [المعجم الصغیر،ص:۴۵] لیکن یہ روایت موضوع ہے کیونکہ اس میں مسعدہ بن یسع راوی کذاب ہے ۔ [مجمع الزوائد، ص: ۵۸،ج۴] نیز یہ روایت حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث کے بھی خلاف ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کے گھر بچہ پیدا ہوا توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوکسی نے کہا کہ عقیقہ کے لئے اونٹ ذبح کیاجائے تو آپ نے فرمایا: ’’معاذاﷲ! ہم تووہی کریں گے جوہمیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم عمردوبکریاں ذبح کی جائیں۔‘‘ [بیہقی، ص: ۳۰۱،ج۹] زیادہ سے زیادہ گائے کاعقیقہ جائز تو ہو سکتا ہے، لیکن اس میں سات حصوں والی بات صحیح نہیں ہے، اس کاگوشت مدرسہ میں بھی بھیجا جاسکتا ہے، لیکن بہتر ہے کہ اسے پڑوسیوں ،رشتہ داروں ،دوست واحباب میں تقسیم کیاجائے یاپھر گھرمیں دعوت کااہتمام کرکے اپنے پڑوسیوں، رشتہ داروں اور طلباء کواس خوشی میں شامل کیا جائے خود بھی اس سے کھایا جاسکتا ہے۔ ائمۂ ثلاثہ امام شافعی، امام مالک اورامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کایہی موقف ہے۔ [الفتح الربانی، ص: ۱۳۲،ج۱۳]