کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 389
ہنگامی طورپر اس نے ایک تیزدھار پتھر سے بکری ذبح کردی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ذبیحہ کواستعمال کرنے کی اجازت دی۔ [صحیح بخاری ،الذبائح:۵۵۰۵] حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں کوقربانی کرنے کاحکم دیاکرتے تھے۔ [صحیح بخاری، الاضاحی تعلیقاً، باب: ۱۰] لہٰذاعورت کے لئے قربانی کاجانورذبح کرنے پرکوئی پابندی نہیں ہے ،یہ مسئلہ لوگوں کے ہاں غلط طورپر مشہورہوچکا ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔ [واللہ اعلم] سوال: ذبح شدہ جانورکے پیٹ سے برآمد ہونے والے بچے کاشرعاًکیاحکم ہے ،کیااسے کھایا جاسکتا ہے یانہیں ؟ اس کی کتاب و سنت سے وضاحت کریں۔ جواب: اگر ذبح شدہ جانور کوذبح کرنے کے بعد اس کے پیٹ سے مردہ بچہ بھی برآمد ہوتواس کاکھانا حلال ہے ،کیونکہ حدیث کے مطابق اس کی ماں کاذبح بچے کے لئے کافی ہے ،حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے عرض کیاکہ یارسول اللہ! ہم لوگ اونٹنی، گائے اوربکری کوذبح کرتے ہیں ان کے پیٹ سے بچہ برآمد ہوتاہے ،کیاہم اسے پھینک دیں یا کھا لیں؟ توآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر پسند کروتواسے کھالوکیونکہ اس کاذبح کرنا، اس کی ماں کاذبح کرناہے ۔‘‘ [ابو داؤد، الاضاحی: ۲۸۴۲] لیکن اس بچے کاکھانا ضروری نہیں ہے ،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اگر چاہو تواسے کھالو۔‘‘ ہاں، اگرپیٹ سے زندہ بچہ برآمد ہوتواس کاذبح کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ مستقل ایک جان ہے، جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ ’’اگر وہ زندہ نکلے تواس کا ذبح کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ایک مستقل جان رکھتا ہے۔‘‘ [مغنی لابن قدامہ، ص: ۳۱۰، ج۱۳] اگرمردہ ہے تووہ حلال ہے اگردل چاہے تواس کوکھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ [واللہ اعلم] سوال: اوجڑی کے متعلق ہماری شریعت میں کیاہدایات ہیں یہ حلال ہے یا نہیں، ہمارے ہاں اس میں اختلاف ہے براہِ کرم کتاب و سنت کی روشنی میں ہماری راہنمائی فرمائیں؟ جواب: اللہ تعالیٰ نے جوجانور انسانوں کے لئے حلال قراردیئے ہیں ان کے تمام اجزاء حلال اورجائز ہیں۔ ہاں، اگر اللہ تعالیٰ نے خودکسی چیز کوبندوں پرحرام کردیا ہو توالگ بات ہے، جیسا کہ حلال جانور کوذبح کرتے وقت اس کی رگوں سے تیزی کے ساتھ بہنے والے خون کوقرآن مجید میں حرام کیاگیا ہے اسے ’’دم مسفوح‘‘ سے تعبیر کیاگیاہے ۔اس کے علاوہ حلال جانورکی کوئی چیز حرام نہیں ہے ،لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہرحلال جانور کا ہر جزو کھانافرض ہے۔ اگرکسی حصے کے متعلق دل نہیںچاہتا تویہ اس کی مرضی ہے، تاہم اسے حرام کہناصحیح نہیں ہے ۔اس وضاحت کے پیش نظر حلال جانورکی اوجڑی بھی حلال ہے اوراسے عام حالات میں کھانا جائز اور مباح ہے۔ شرعی طورپر اس میں حرمت کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حلال جانور کے فلاں فلاں عضوکومکروہ خیال کرتے تھے۔ یہ روایات صحیح نہیں ہیںجس کی وضاحت ہم نے اہلحدیث مجریہ یکم نومبر 2003؁ء میں کی ہے۔ دراصل احناف کے نزدیک حلال جانور کابول وبرازپلیدہے چونکہ اوجڑی حلال جانور کے براز کامحل ہے، اس لئے یہ حضرات اسے مکروہ قراردیتے ہیں، حالانکہ یہ مفروضہ بھی محل نظر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ جن جانور وں کا