کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 387
تعاون کیاجائے اورقربانی دینے کی سنت کوبھی زندہ رکھاجائے ۔ [واللہ اعلم] سوال: کیاقربانی کے حصہ داروں میں گوشت تقسیم کرتے وقت کمی بیشی سودکے زمرے میں آتی ہے؟ وضاحت فرمائیں۔ جواب: قربانی کے شرکاء قربانی میں برابرکے شریک ہوتے ہیں ،انہیں پوراپوراحصہ کے مطابق گوشت دینا چاہیے۔ لیکن اگر نادانستہ طورپر تقسیم کرتے وقت کمی بیشی ہوجائے تو اسے سود قراردینے کی کوئی وجہ نہیں ہے، شرکاء کو چاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں زیادہ باریک بینی کامظاہر ہ نہ کریں ۔بہرحال عملاًگوشت تقسیم کرتے وقت کمی بیشی نہیں کرناچاہیے ۔اگرسہواًایساہوجائے تو قطعی طورپر یہ سودنہیں ہے ۔ [واللہ اعلم ] سوال: امام مسجد کن کن حالات میں قربانی کی کھالیں اپنے ذاتی مصرف میں لاسکتا ہے ؟ جواب: امام مسجد اگرمسکین ہے تواس حیثیت سے بقدرحصہ اسے چرمہائے قربانی سے کچھ دیاجاسکتا ہے، تاکہ دوسرے فقراء ومساکین محروم نہ رہیں۔ ایسے حالات میں وہ قربانی کی کھالیں اپنے مصرف میں لاسکتا ہے لیکن امامت کاعوض یاحق الخدمت سمجھ کر قربانی کی کھالیں امام مسجد کونہیں دی جاسکتیں کیونکہ عوض کے طورپر کسی کوقربانی کی کھال دینامنع ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کوواضح حکم دیا تھا کہ ’’قصاب کوان کھالوں سے کچھ نہ دیاجائے ۔‘‘ [صحیح بخاری ،الحج:۱۷۱۶] لہٰذا امام مسجد اگر محتاج ومستحق ہے توقربانی کی کھالوں سے بقدرحصہ اسے دیاجاسکتا ہے۔اہل مسجد کی طرف سے تمام کھالیں اس کے سپرد کر دینا تاکہ وہ انہیں اپنے مصرف میں لے آئے ،کسی صورت میں درست نہیں ہے کیونکہ ایساکرنے سے دوسرے مستحقین محروم رہتے ہیں۔ [واللہ اعلم] سوال: ہماری مسجد میں شہری بچے ناظرہ قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں کیاہم اپنی مسجد کے امام کوقربانی کی کھالوں سے تنخواہ دے سکتے ہیں؟ جواب: چرمہائے قربانی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوحکم دیا تھاکہ قربانی کاگوشت اوراس کاچمڑا سب مساکین میں تقسیم کردواورقصاب کوبطورمزدوری ان میں سے کچھ نہ دو۔ [صحیح مسلم ،الحج :۱۳۱۷] اس فرمان نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی کھالوں کے حقدارصرف غرباء اور مساکین ہیں اوریہ حق انہی ناداراورغریبوں کوملناچاہیے ۔امام مسجد قطعاًان کھالوں کاحقدارنہیں ہے۔ ہاں، اگرمقامی جماعت انتہائی کمزورہے یاخودامام غریب اورنادارہے تواس صورت میں قربانی کی کھالیں امام مسجد کوبقدرضرورت دی جاسکتی ہیں یاایسی مفلوک الحال جماعت انہیں فروخت کرکے اس مدرسے کے امام مسجد کی تنخواہ پوری کر سکتی ہے، تاہم بہتر یہی ہے کہ اہل مسجد جس طرح اپنی دیگر ضروریات زندگی کوپوراکرتے ہیں۔ امام مسجد کی تنخواہ کوبھی اپنی ان ضروریات کی فہرست میں شامل کریں۔ مسجد کا امام مسجد کی ایک ضرورت ہے اوراس ضرورت کو پورا کرنا اہل مسجد کی ذمہ داری ہے۔ قربانی کی کھالوں سے اس کی تنخواہ اداکرنے سے گھر کی چیز گھرہی رہ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی بچوں کی تعلیم پر بھی قربانی کی کھالوں کوخرچ نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں جوسیاسی جماعتیں ہیں وہ بھی ان کی حقدار نہیں ہیں۔ جہادی تحریکوں سے بھی ہوشیاررہنا چاہیے۔ قربانی کی کھالیں صرف غرباء ومساکین اوربیواؤں کاحق ہے۔ مقامی طلباء اورمساجد