کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 380
گے ، لیکن ان کی رہائش حدود کعبہ اورمنیٰ سے باہر ہے ،کیاایساکرناجائز ہے ؟وضاحت فرمائیں۔ جواب: حکومت سعودیہ کواللہ تعالیٰ قائم دائم رکھے ،اس نے حجاج کرام کی خدمت کے لئے بہت کام کیاہے ،اس سلسلہ میں انہوں نے اپنے خزانے کھول رکھے ہیں آج کل وہاں جوسہولتیں میسرہیں چندسال قبل ان کاتصور بھی نہیں کیاجاسکتاتھا ،ان سہولتوں میں سے ایک سہولت یہ ہے کہ انہوں نے حجاج کرام کے لئے قربانی کی ایک سکیم کاآغاز کیاہے کہ وہ قربانی کی رقم لینے کے بعدحجاج کو ایک وقت دے دیتے ہیں کہ ہم اس وقت آپ کی طرف سے قربانی کردیں گے ۔اس کے بعد آپ دوسرے کام کرسکتے ہیں۔ حجاج کرام کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ اگرکوئی خودقربانی کرنا چاہے تو اسے اجازت ہوتی ہے لیکن اس کے لئے خاص دقت کا سامنا کرناپڑتا ہے ۔حکومت کی اسکیم کاایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس طرح گوشت ضائع نہیں ہوتابلکہ وہ اپنی نگرانی میں محفوظ کرکے دیگر ممالک میں بھیج دیتے ہیں جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے ۔صورت مسئولہ میں حکومت کی اس اسکیم کے متعلق جو شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اسے کسی صورت میں مستحسن قرارنہیں دیاجاسکتا۔اگرکسی کادل مطمئن نہ ہوتوحکومت کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں کہ ضروراس میں شمولیت کی جائے لیکن اسے مشکوک قراردیناصحیح نہیں ہے ۔اس کے متبادل جوصورت پیش کی گئی ہے اس میں کیاضمانت ہے کہ ضرورذبح کریں گے، پھران کاگھرمکہ اور حدودِ منیٰ سے باہرہے۔ جبکہ قربانی کے لئے ضروری ہے کہ وہ منیٰ یا حدود مکہ میں ذبح کی جائے ،اگرمنیٰ یامکہ سے باہر ہی ذبح کرناہے تواسے پاکستان میں کیوں ذبح نہیں کیا جا سکتا؟ بہرحال انسان کو چاہیے کہ وہ خود ذبح کرے یا حکومت کی اسکیم میں شمولیت اختیار کرے۔ اس طرح شکوک و شبہات پھیلانے والوں سے ہوشیار رہیں، یہ اکثر مفادپرست ہوتے ہیں باتوں سے حجاج کرام کودھوکہ دیتے ہیں ۔ [واللہ اعلم ] سوال: میں نے ایک جانور کے متعلق نذرمانی تھی کہ اسے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ذبح کرناہے ،اب کیا اسے قربانی کے لئے رکھاجاسکتا ہے کیونکہ قربانی بھی اللہ کی راہ میں ہوتی ہے؟ جواب: نذر ایسے عہد کو کہا جاتا ہے جوانسان خوداپنے اوپر واجب قراردے لے اوراگریہ نذراللہ کی اطاعت کے لئے ہے تواسے پورا کرنا چاہیے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے اللہ کی اطاعت کے لئے نذرمانی ہوتواسے پوراکرناچاہیے اورجس نے اللہ کی نافرمانی کے لئے نذر مانی ہوتو اس کو اللہ کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ [صحیح بخاری، الایمان والنذور: ۶۶۹۶] اللہ کی اطاعت میں رہتے ہوئے اپنی نذروں کوپوری کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ نے تعریف کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہ اپنی نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہرسوپھیلی ہو گی۔‘‘ [۷۶/الدھر:۷] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانی بایں الفاظ بیان کی ہے کہ ’’لوگ اپنی نذر کو پورا نہیں کریں گے۔‘‘ [صحیح بخاری: ۶۶۹۵] اس قرآنی آیت اورپیش کردہ احادیث کے پیش نظر سائل کوچاہیے کہ وہ اپنی نذر کو پورا کرتے ہوئے اس جانور کواللہ کی راہ میں ذبح کرے اور قربانی کے لئے کوئی دوسراجانورخریدلے اور اگر نذرمانتے وقت یہ نیت تھی کہ قربانی بھی اللہ کے راستہ میں ہوتی ہے تومیں نے اسے قربانی کے لئے ذبح کرناہے توپھراس جانور کوبطورقربانی ذبح کیا جا سکتا ہے۔ اگر نذر مانتے وقت اس قسم کی نیت نہ تھی تواللہ تعالیٰ کے معاملہ میں اس طرح کی ’’بچت سکیم‘‘ پرعمل نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس جانور کوفی سبیل اللہ ذبح کردیں اوراس