کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 38
٭ فتویٰ لکھنے کے بعد ہم اللہ اور اس کے رسول کی نیابت میں رہتے ہوئے دستخط کرتے ہیں، اس احساس ذمہ داری کے پیش نظر ہم نے قرآن و سنت کو ایک ہی درجہ میں رکھا ہے، اخذ مسائل میں ہم انہیں اکٹھا دیکھنے اور ان میں تفریق نہ کرنے کے قائل ہیں، اس بنا پر یہ مجموعہ اقوال رجال اور قیل و قال سے پاک اور دلیل کے اعتبار سے قرآن و حدیث پر مشتمل ہے۔
٭ کتاب وسنت سے دلیل لینے کے ساتھ ہم نے اس بات کا بھی التزام کیا ہے کہ استنباط مسائل میں ’’سبیل المؤمنین‘‘ سے خروج نہ کیا جائے، ہم نے قرآن و سنت کو سمجھنے کے لیے صحابہ کرام کے فہم کا اعتبار کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ’’سبیل المؤمنین‘‘ کا بطور خاص ذکر فرمایا ہے۔ (۴/النساء:۱۱۵) اس بنا پر ہم نے انفرادی اور شاذ آرا سے دانستہ پہلو تہی کی ہے۔
٭ مداہنت یا بے جا سختی کی بجائے ہم نے نرمی اور آسانی کے اصول کو پیش نظر رکھا ہے کیونکہ اس ضابطہ کو اللہ تعالیٰ نے خود پسند فرمایا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ نرمی کا برتائو چاہتا ہے وہ اس سلسلہ میں سختی نہیں چاہتا۔‘‘ (۲/البقرہ:۱۸۵)
دوسرے مقام پر فرمایا:
’’اس نے دین کے معاملات میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔‘‘ (۲۲/الحج:۷۸)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی اصول کو اپنایا اور اپنے صحابہ کرام کو اس کی تلقین فرمائی۔ (صحیح بخاری، الادب:۶۱۱۶،۶۱۲۷)
٭ ہم نے اس مجموعہ میں یہ بات بطور خاص ملحوظ رکھی ہے کہ اگر کوئی عمل کسی صحابی سے ثابت ہے، اس پر بدعت کا ٹھپہ نہ لگایا جائے خواہ آسمان نبوت کے روشن ستاروں کی اکثریت اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ کسی صحابی کے متعلق یہ تصور نہیں کیا جا سکتاکہ وہ دیدہ دانستہ کسی بدعت کا مرتکب ہوا ہو گا، جبکہ ان حضرات کو دین میں نئی باتوں سے انتہائی نفرت تھی، بہرحال صحابی کے کسی عمل کو بدعت کہنا بہت بڑی جسارت ہے جس سے اجتناب کیا گیا ہے۔
٭ کتاب و سنت کی روشنی میں دورِ حاضر کے جدید مسائل کا اطمینان بخش حل پیش کیا گیا ہے، ایسے مسائل کی تمام جزئیات پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے نصوص کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اس سلسلہ میں زمینی حقائق کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے تاکہ مطالعہ کرتے ہوئے قاری کو اطمینان قلب اور شرح صدر حاصل ہو۔
٭ جن مسائل میں کتاب و سنت سے نصوص نہیں مل سکیں وہاں ہم نے اسلاف کے اقوال کا حوالہ دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فقہ کے ان اصولوں کو استعمال کیا ہے جو محدثین کرام کے ہاں رائج ہیں، ایسے اصول اس مجموعہ میں نظر نہیں آئیں گے جو بعض فقہا نے صحیح احادیث کو رد کرنے کے لیے بنائے ہیں، اس اعتبار سے اس مجموعہ کو فقہ الحدیث کے نام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
٭ اس مجموعہ میں صرف ان سوالات کا جواب دیا گیا ہے جن کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے، شریعت نے بے مقصد اور لا یعنی سوالات اور اس کے جوابات کو مستحسن قرار نہیں دیا ہے مثلاً زلیخا کی شادی حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوئی تھی یا نہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام کیا تھا، حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا طول و عرض کتنا تھا اور اصحاب کہف کے کتے کا رنگ کیسا تھا وغیرہ۔