کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 377
7۔ قربانی کرنے والے کے لئے حکم ہے کہ وہ ذوالحجہ کاچاندنظر آنے کے بعد ذبح کے وقت تک اپنی حجامت وغیرہ نہ بنائے جبکہ بعض حالات میں ہدی بھیجنے والے پراس قسم کی کوئی پابندی نہیں ۔ 8۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک ہدی کاجانورعیوب سے پاک ہوناضروری نہیں جبکہ قربانی کے جانور میں عیوب کا ہونا جائز نہیں ہے۔ 9۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 9 ؁ھ میں ہدی کے جانور حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ روانہ کئے جبکہ مدینہ میں آپ نے قربانی بھی دی اس سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ دونوں کے احکام الگ الگ ہیں۔ 10۔ ہدی کاجانورتبدیل کرنادرست نہیں جبکہ قربانی میں ایسا کیاجاسکتا ہے ۔(تلک عشرۃ کاملۃ ) محدثین کرام نے کتب حدیث میں ہدی کے متعلق اس طرح کے عنوانات قائم کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدی کاجانور تبدیل کرناجائز نہیں ہے۔ (منتقی الاخبار) لیکن کسی محدث نے قربانی کے متعلق اس طرح کاباب قائم نہیں کیا جس کا واضح مطلب یہ ہو کہ ان دونوں کے احکام میں بہت فرق ہے اورکسی کودوسرے پرقیاس نہیں کیاجاسکتا ۔ مذکورہ حدیث پرایک اور پہلو سے بھی غورکیاجاسکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک عمدہ بختی اونٹ خریداجب اس کی قیمت تین سو دینار لگی توآپ نے اسے فروخت کرکے اس کی قیمت کے عوض ایک عام اونٹ خریدنے کاپروگرام بنایا ، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا اور کہا کہ وہ عمدہ اونٹ ہی اللہ کی راہ میں ذبح کرو،بہترین اونٹ کے بدلے عام اونٹ ہدی کے لئے لینا درست نہیں۔ چنانچہ محدث ابن خزیمہ نے اس حدیث پربایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے۔’’زیادہ قیمت کی عمدہ ہدی دینے کا بیان۔‘‘ یہ معنی کرنے سے مذکورہ حدیث مانعین کے لئے دلیل نہیں بن سکتی ،مختصر یہ ہے کہ قربانی کے تبادلہ کی چارصورتیں ممکن ہیں۔ 1۔ صاحب حیثیت وہ جانوربھی ذبح کرے جو اس نے پہلے خرید کیا ہے اوربہترین عمدہ جانوراپنی گرہ سے ہی خرید کرذبح کرے ۔ 2۔ اسے فروخت کرکے اس میں اپنی طرف سے کچھ رقم ملاکربہترین جانور خریدکرذبح کردیاجائے ۔ 3۔ عدم استطاعت کی صورت میں خرید ے ہوئے جانور کوہی ذبح کردے ۔ 4۔ یہ جائز نہیں ہے کہ اسے بیچ کرکچھ رقم پس اندازکرے اوراس سے کم قیمت کے عوض کوئی معمولی جانور خریدکرذبح کرے ،اس قسم کی سودابازی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ [ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب] سوال: چرمہائے قربانی کاصحیح مصرف کیاہے۔ ہمارے ہاں بعض تنظیموں کی طرف سے عید الاضحی سے پہلے وعدہ کی رسیدیں تقسیم کی جاتی ہیں ،کیااس طرح کی وعدہ رسیدیں ملنے سے ہم پابند ہوجاتے ہیں کہ انہیں کوقربانی کی کھال دی جائے یااپنی صوابدید کے مطابق انہیں تقسیم کریں؟ جواب: چرمہائے قربانی کاصحیح مصرف گردوپیش کے غرباء ومساکین ہیں چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر سو اونٹ ذبح کئے اوران کی کھالوں کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کوحکم دیا کہ انہیں صدقہ کے طورپر تقسیم کر دیا جائے۔ [صحیح بخاری ، الحج : ۱۷۱۸] اس کی تفصیل بایں الفاظ وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کوحکم دیا کہ وہ قربانی کے اونٹوں کی دیکھ بھال کریں، نیز ان کاگوشت، کھا لیں اور جلیں مساکین میں تقسیم کردیں اورقصاب کوبطوراجرت ان کھالوں سے کچھ نہ دیں۔