کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 375
اسے اپنی صحیح میں لائے ہیں، لہٰذ ااس حدیث پربلاوجہ اعتراض درست نہیں ہے۔ ہاں، علامہ خطابی اورامام بیہقی نے اس حدیث کوغیر متصل قرار دیا ہے ۔اس کاجواب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دیا ہے کہ جب سماع کی تصریح موجودہے تواسے مرسل یامنقطع کیونکر کہاجاسکتا ہے بلکہ یہ روایت ایسی متصل ہے جس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے، پھر اس ’’مبہم حی ‘‘کے متعلق لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک جماعت سے سناہے کہ جس کے کم ازکم تین افراد ہیں۔ [فتح الباری ،ص: ۷۷۴،ج۶] پھرآگے چل کر لکھتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کے عین مطابق ہے کیونکہ عام طورپر ایک قبیلہ کاجھوٹ پراتفاق کرلیناناممکن ہے ۔ [فتح الباری، ص: ۷۷۵،ج ۶] پھر اس حدیث کے متابعات وشواہد بھی ملتے ہیں جواس کی تائید کرتے ہیں جن میں ’’حی ‘‘کے بجائے ابو لبید لمازہ بن زیاد، حضرت عروہ بارقی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں۔ [مسند امام احمد، ص:۳۷۶، ج۴] امام منذری رحمہ اللہ اس حدیث پربحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ بکری خریدنے والی اس روایت کوابولبید لمازہ بن زیاد سے بیان کرتے ہیں جوحضرت عروہ بارقی سے بیان کرتے ہیں اس طریق سے یہ روایت حسن قرارپاتی ہے۔ [مختصرابو داؤد، ص: ۵۱،ج ۵] اس متابعت کے علاوہ حضرت حکیم بن حزام کی حدیث کوبطورشاہد پیش کیا جاسکتا ہے ۔ الغرض یہ حدیث صحیح ہے اوراس میں کسی طرف سے ضعف کاشائبہ تک نہیں ہے، البتہ مانعین کی طرف سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جوحدیث پیش کی گئی ہے اس کے متعلق ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے ناقابل حجت کی طرف اشارہ کیا ہے، فرماتے ہیں کہ محدث ابن خزیمہ نے اس حدیث کواپنی صحیح میں نقل کیا ہے لیکن اس سے حجت لینے میں توقف کیاہے۔ [تہذیب، ص: ۱۲۱،ج۲] اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس روایت میں ایک راوی جہم بن جارود ہے جوحضرت سالم بن عبداللہ سے بیان کرتا ہے۔اس کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس جہم کاحضرت سالم سے سماع معروف نہیں ہے ۔ [تاریخ الکبیر،ص: ۲۳۰،ج۲القسم الثانی ] اس کے علاوہ جہم بن جارود بھی غیر معروف راوی ہے، چنانچہ اس کے متعلق امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بڑے بڑے تابعین سے روایت کرتا ہے۔ [دیوان الضعفاء ،ص :۴۷،رقم:۷۹۳] نیز فرماتے ہیں کہ اس راوی میں جہالت ہے خالد بن ابی یزید کے علاوہ اس سے اورکوئی راوی بیان نہیں کرتا ۔ [میزان الاعتدال، ص:۴۲۶ ،ج۳] محدثین کے ہاں کسی راوی کی جہالت صرف اسی صورت میں دورہوسکتی ہے کہ کم ازکم اس سے بیان کرنے والے دوثقہ راوی ہوں۔ اما م ذہبی رحمہ اللہ نے مذکورہ بات کہہ کراس بات کی توثیق کی ہے کہ اس کی جہالت بدستور قائم ہے کیونکہ اس سے صرف ایک راوی بیان کرتا ہے اورمجہول کی روایت ناقابل قبول ہوتی ہے۔ بلاشبہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس راوی کوچھٹے درجے کامقبول راوی بنایا ہے۔ [تقریب ،ص:۱۳۵، ج۱]