کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 372
[ترمذی ، الاضاحی :۱۵۲۱] ایک روایت میں ہے کہ آپ نے دوجانورذبح کئے اور فرمایا کہ ’’ایک میری امت کے ہر اس شخص کے لئے ہے جس نے اللہ کے لئے توحیداورمیرے لئے شریعت پہنچادینے کی گواہی دی اوردوسرامحمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اوراس کی آل کی طرف سے ہے۔‘‘ [ابن ماجہ ، الاضاحی :۳۱۲۲] مذکورہ روایات بھی محدثین کرام کے قائم کردہ معیار صحت پرپوری نہیں اترتیں ۔اس کے علاوہ ان سے مراد خاص فوت شدہ ہی نہیں بلکہ مرنے والے اورزندہ ملے جلے مراد ہیں ،خاص انفرادی طورپر اکیلی میت کی طرف سے قربانی کرنے کی کوئی صحیح حدیث ہمیں نہیں مل سکی ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے نادار افراد کی طرف سے جو قربانی دی ہے، وہ آپ کاخاصہ ہے، اس لئے کسی اورکے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ امت کے نادار افراد کی طرف سے قربانی دے اورنہ ہی اس پر قیاس کرکے کسی دوسرے کی طرف سے نماز ،روزہ ادا کیاجاسکتا ہے اورنہ ہی قرآن کریم کی تلاوت کی جاسکتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کاثبوت نہیں ملتا ۔ [ارواء الغلیل ،ص: ۳۵۴، ج ۳] ہاں میت کی طرف سے صدقہ کرنا درست ہے، جیسا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہوتاہے۔ صدقہ خواہ جانور کاہویاکسی اورچیزکااس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔اس قسم کے صدقہ سے خود بھی کھایا جا سکتا ہے، لیکن غربا اورمساکین کونظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ جیسا کہ حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دو جانور بطورقربانی ذبح کرتے تو ان سے مساکین کوکھلاتے اورخود بھی کھاتے اوراپنے اہل وعیال کوبھی اس سے محروم نہ کرتے ۔ [مسند امام احمد،ص۳۹۱، ج ۶] اس سلسلہ میں صحیح مسلم کی حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کاایک جانور ذبح کیااورفرمایا :’’اے اللہ! محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )، اس کی آل اوراس کی امت کی طرف سے قبول کر۔‘‘ [صحیح مسلم ،الاضاحی :۱۹۶۷] اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح کرتے وقت دعافرمائی ’’کہ اے اللہ !میری قربانی بھی قبول فرما اورمیری آل واولاد کی طرف سے قبول کربلکہ ساری امت کی قربانی کوقبول فرما ۔جانورذبح کرتے وقت یہ نہیں فرمایا کہ یہ جانور میری طرف سے ،میر ی آل کی طرف سے اورمیری امت کی طرف سے ،یعنی اس روایت میں دوسروں کی طرف سے کسی قربانی کرنے کاکوئی ذکر نہیں ہے۔ [واللہ اعلم] سوال کے دوسرے حصے کے متعلق ہماری گزارشات یہ ہیں کہ اس حدیث میں قربانی کے جانور کی کم ازکم حالت کوبیان کیاگیا ہے، اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ دودانتا سے اوپر جوجانور چوگا یاچھگا ہے اس کی قربانی جائز نہیں ۔اس کی متعد د مثالیں احادیث میں ملتی ہیں جن میں کم ازکم نصاب کوبیان کیا گیا ہے، مثلاً: چوری کے متعلق فرمایا کہ ’’دس درہم کی چوری پرہاتھ کاٹاجائے گا یا پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ نہیں ،اسی طرح پانچ وسق سے کم اجناس میں صدقہ نہیں یاپانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔‘‘ ان روایات میں چوری یازکوٰۃ کاکم ازکم نصاب بیان ہوا ہے، اسی طرح حدیث میں ہے کہ قربانی میں دودانتا جانور ذبح کرو،اس کامطلب یہ نہیں کہ