کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 366
ایسی صورت میں بیٹے پر لازم ہے کہ وہ اسے طلاق دیدے۔ 2۔ والد کوئی شرعی سبب بیان نہیں کرتا بلکہ اپنی انا نیت یا ضد کی وجہ سے بیٹے کو طلاق دینے کا کہتا ہے تو ایسی صورت میں طلاق دینا ضروری نہیں ۔ جبکہ اس کی بہو اخلاقی لحاظ سے درست ہو، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے واقعہ میں اس قسم کا اشارہ ملتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی خاص مصلحت اور حکمت کے پیش نظر اپنے بیٹے کو طلاق دینے کا حکم دیا تھا، جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ’’میرے بیٹے نے ایسی عورت سے نکاح کررکھا ہے، جسے میں اس کے لئے ناپسند کرتا ہوں‘‘۔ [مسند امام احمد،ص:۴۲،ج۲] اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ الساعاتی لکھتے ہیں کہ آپ نے اس عورت کو اپنے بیٹے کے لئے ا س لئے ناپسند کیا کہ وہ ان کے لئے موزوں اور مناسب نہ تھی۔اس معاملہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ضرور کسی مصلحت کو ملحوظ رکھا ہو گا، پھر آپ الہام الہٰی کے حامل بھی تھے۔ [الفتح الربانی، ص: ۴،ج۱۷] موجودہ دور میں جبکہ روشن خیالی ہمارے معاشرہ میں اپنا راستہ ہموار کررہی ہے۔ ضروری نہیں کہ صر ف والد کے کہنے پر بیوی کو طلاق دیدی جائے، ہاں، اگر کوئی وجہ بیان کی جائے تو اور بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ طلاق دینا خاوند کا حق ہے۔ خاوند نے اگر از خود یا اپنے باپ کے کہنے پر اپنے اس حق کو استعمال کیا ہے اور طلاق کے تیر کو اپنے ترکش سے نکال پھینکا ہے۔ اب بیوی کو علم ہو یا نہ ہو وہ تیر اپنے نشانہ پر بیٹھ جائے گا۔ چونکہ بیوی نے عدت گزارنا ہے، اس لئے بہتر ہے کہ طلاق کے متعلق بیوی کو علم ہونا چاہیے۔ لیکن نفاذ طلاق کے لئے یہ شرط نہیں ہے۔ اگر خاوند بیوی کے علم میں لائے بغیر ایسی طلاق سے رجو ع کرلیتا ہے تو اس کا رجوع صحیح ہے، تاہم وہ طلاق شمار کی جائے گی۔ اس میں کسی اہل علم کو اختلاف نہیں ہے۔ تیسری بات یہ کہ وقفہ وقفہ سے بیوی کو اگر تین طلاق دیدی جائیں تو عام حالات میں اب رجوع کی کوئی گنجائش نہیں رہتی، جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی صراحت ہے۔ صورت مسئولہ میں خاوند نے وقفہ وقفہ کے بعد اپنی بیوی کو تین طلاق دینے کا نصاب پورا کرلیا ہے۔ اب اس سے رجوع نہیں ہو سکتا، اس سے رجوع کی صرف ایک صورت ہے کہ وہ آباد ہونے کی نیت سے کسی دوسرے خاوند سے نکاح کرے۔ نکاح کرتے وقت پہلے خاوند کی طرف واپسی کی قطعاً کوئی نیت نہ ہو۔ کیونکہ ایسے نکاح کو سازشی نکاح کہا جاتا ہے جس خاوند سے اس کے گھر آباد ہونے کی نیت سے نکاح کیا ہے، اگر وہ فوت ہو جائے یا اسے طلاق دیدے تو عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے از سر نو نکاح کیا جاسکتا ہے۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پھر اگر مرد(تیسری) طلاق بھی دیدے تو اس کے بعد وہ عورت اس کے لئے حلال نہ رہے گی۔ حتی کہ وہ کسی دوسرے خاوند سے نکاح کرے، ہاں! اگر دوسرا خاوند اسے طلاق دیدے تو پھر پہلا خاوند اور یہ عورت دونوں اگر یقین رکھتے ہیں کہ حدود اللہ کی پابندی کریں گے تو وہ آپس میں رجوع کرسکتے ہیں، اس سلسلہ میں ان پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ [۲/البقرہ:۲۳۰]