کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 365
جاری کرے۔ صورت مسئولہ میں خاوندکو اطلاع دیے بغیر یک طرفہ ڈگری جاری کی گئی ہے۔ عدالت کو چاہیے تھا کہ وہ خاوند پر لگائے گئے الزامات سے اسے آگاہ کرتی ، تاکہ وہ اس کی وضاحت کرتا۔ تاہم سوال میں اس بات کی وضاحت ہے کہ خاوند نے عرصہ تین سال سے خرچہ وغیرہ بند کیا ہے۔ جبکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اپنی بیویوں سے حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین کرتا ہے اور انہیں تکلیف دینے سے منع کرتا ہے۔ اپنی بیوی کو خرچہ نہ دینا اس سے بڑھ کر اور کیا تکلیف ہو سکتی ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کے سربراہان کو لکھا تھا کہ جو آدمی اپنی عورتوں سے غائب ہیں انہیں چاہیے کہ وہ ان کے اخراجات برداشت کریں یا انہیں طلاق دے کر فارغ کردیں۔ طلاق دینے کی صورت میں بھی پہلی مدت کے اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔ [زاد المعاد فی ہدی خیر العباد] اگرچہ عدالت کی یک طرفہ ڈگری ہے، تاہم نافذ العمل ہے ۔ اگر فریقین باہمی اتفاق پر آمادہ ہیں تو نئے نکاح سے دوبارہ رشتہ بحال ہو سکتا ہے۔ [واللہ اعلم] سوال: میں ملک سے باہر تھا میرے والد نے مجھے لکھا کہ اپنی بیوی کو طلاق دیدو میں نے ان کی اطاعت کرتے ہوئے طلاق نامہ لکھ کر والد صاحب کو بھیج دیا۔ لیکن انہوں نے میری بیوی کو اس کے متعلق کچھ نہ بتایا۔ ایک سال بعد جب میں واپس آیا تو بیوی کے ساتھ راضی خوشی رہنے لگا۔ اس کے بعد میرا بیوی سے کوئی جھگڑا ہوا تو میں نے بیوی کو پھر طلاق دیدی۔ بعد ازاں ہماری صلح ہو گئی۔ آج سے چند روز پہلے ہمارا پھر کسی بات پر تنازعہ ہوا تو میں نے جذبات میں اکر پھر طلاق دیدی۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ میں اب بیوی سے رجوع کرسکتا ہوں یا نہیں؟ کیا پہلی طلاق شمار ہو گی جس کا بیوی کو علم نہ تھا کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دے کر میری پریشانی کو دور کریں۔ جواب: صورت مسئولہ میں تین چیزوں کے متعلق وضاحت کرنا ہے: 1۔ والد کے کہنے پر طلاق دینے کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ 2۔ کیا طلاق کے متعلق بیوی کو علم ہونا ضروری ہے۔ 3۔ وقفہ ، وقفہ میں تین طلاق دینے سے رجوع کی گنجائش رہتی ہے۔ عام طور پر ہمارے ہاں یہ ضروری خیال کیا جاتاہے کہ اگر والد طلاق کے متعلق اپنے بیٹے کو حکم دے تو والد کی اطاعت کرتے ہوئے طلاق دے دینی چاہیے۔ اس کے متعلق حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے متعلق ایک واقعہ کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ میری ایک بیوی تھی۔ جسے میرے والد محترم حضرت عمر رضی اللہ عنہ ناپسند کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اسے طلاق دیدو۔ میں نے اسے طلاق دینے سے انکار کردیا۔ انہوں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ ’’اپنے باپ کا کہا مانو۔‘‘ چنانچہ میں نے اسے طلاق دیدی۔ [ مسند امام احمد، ص:۲۰،ج۲] اس سلسلہ میں ہما را موقف یہ ہے کہ والد کے کہنے پر طلاق دینے کی دو صورتیں ہیں۔ 1۔ والد کوئی شرعی سبب بیان کرے کہ تمہاری بیوی اخلاقی طور پر درست نہیں ہے۔ غیر مردوں سے میل جول رکھتی ہے وغیرہ۔ تو