کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 364
صورت مسئولہ میں نکاح کی چنداں ضرورت نہ تھی بلکہ یہ نکاح تحصیل حاصل کی قبیل سے ہے، تاہم اس قسم کانکاح پڑھنے سے نکاح خواں اورگواہان کے نکاح متاثرنہیں ہوتے خاوندکوچاہیے تھا کہ وہ تجدید نکاح کے بغیر ہی رجوع کرلیتا ۔ [۲/البقرہ :۲۲۸] سوال: ایک عورت کافریضہ حج اداکرنے کے لئے قرعہ نکلا ہے ابھی تیاری کے مراحل میں تھی کہ اس کاخاوند فوت ہوگیا۔اب وہ کیا کرے حج پر چلی جائے یاعدت گزارنے کے لئے گھر میں رہے؟ جواب: انسان کے ذمہ جوفرائض عائد ہوتے ہیں ان کی دواقسام ہیں : 1۔ موسع؛ یعنی ان کی ادائیگی کے لئے وسیع وقت ہوتا ہے ۔ 2۔ مضیق؛ یعنی وہ صر ف ایک خاص وقت پر ادا ہوسکتے ہیں ان کی ادا ئیگی کاوقت انتہائی تنگ ہوتا ہے ۔ صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت دوفرائض کے درمیان گھرچکی ہے۔ ایک فریضہ حج کی ادائیگی ہے اور اس کے لئے اس کا قرعہ نکل آیا ہے لیکن یہ ایک فرض ہے جوموسع ہے، یعنی اس کا وقت وسیع ہے اور اسے بعد میں بھی ادا کیاجاسکتا ہے اوردوسرا فرض عدت وفات کاگزارنا ہے اوریہ ایک ایسا فرض ہے جس کاوقت مقرر ہے، یعنی خاوند کی فوتگی کے بعد شروع ہوکرچارماہ دس دن تک گھر میں سوگ منانا ہے، یہ فرض مضیق ہے، یعنی اس کی ادا ئیگی کاوقت انتہائی تنگ ہے ۔لہٰذا اسے فریضہ حج کومؤخر کردینا چاہیے اورگھر میں عدت وفات کوپوراکرے۔ [واللہ اعلم] سوال: میں عرصہ سولہ سال سے کویت میں مقیم ہوں اور میرے بیوی بچے پاکستان میں ہیں، میں انہیں باقاعدہ خرچہ بھیجتا ہوں، البتہ آخری تین سال میں نے کسی وجہ سے خرچہ وغیرہ بھیجنا بند کیا ہے۔ میری بیوی نے عدالت کے ذریعے خلع لے لیا ہے، جبکہ مجھے اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اس قسم کے خلع کا شرعاً کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ دیں۔ جواب: قرآنی صراحت کے مطابق عورت مرد کے لئے اور مرد عورت کے لئے لباس ہے، اگر بیوی شوہر کو کچھ دے دلا کر اس لباس کو اتار پھینکے تو اسے خلع کہتے ہیں۔ اگر عورت اپنے شوہر کو اس شکل و صورت یا اس کے اخلاق و کردار کی وجہ سے ناپسند کرتی ہو اور ڈرتی ہو کہ وہ اس کی فرمانبرداری میں اللہ کا حق ادا نہیں کرسکے گی تو اس کے لئے جائز ہے کہ حق مہر بطور فدیہ واپس کرکے اس سے خلع لے لے اور جدائی اختیار کرے۔صورت مسئولہ میں اخراجات کی ادائیگی او ر دیگر حقوق کی بجا آوری خاوند کے ذمے تھی جو اس نے آخری تین سالوں میں پوری نہیں کی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر اگر عورت مجبور ہو کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے تو یہ اس کا حق ہے، اگرچہ عائلی زندگی میں طلاق دینے کا حق خاوند کو سونپا گیا ہے۔ لیکن اگر میاں بیوی کے تعلقات اس قدر کشیدہ ہوجائیں کہ باہمی اکھٹے رہنے کی صورت باقی نہ رہے اور شوہر بھی طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو، ایسے حالات میں اسلام نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے خاوند سے خلع لے کر فارغ ہو جائے ۔ اس کی دو صورتیں ممکن ہیں: 1۔ میاں بیوی باہمی رضا مندی سے اپنے گھر میں ہی کوئی معاملہ طے کرلیں۔ اس کے بعد خاوند بیوی سے وصولی کے بعد اسے طلاق دیدے۔ 2۔ خاوند طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو عورت عدالت کی طرف رجوع کرے، پھر عدالت فریقین کے بیانات سننے کے بعد ڈگری