کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 363
جواب: اللہ تعالیٰ کے نزدیک نکاح کارشتہ اس قدرحساس اورمضبوط ہے کہ اسے اشاروں ،کنایوں سے نہیں توڑاجاسکتا ہے۔ اسے ختم کرنے کے لئے صراحت کے ساتھ لفظ طلاق استعمال کرناپڑتا ہے یا پھرسیاق وسباق کاخیال کرتے ہوئے نیت کو دیکھناچاہیے ۔ صورت مسئولہ میں خاوند کااپنی بیوی کویوں کہناکہ ’’میں نے تجھے آزاد کیا۔‘‘ رشتہ ازدواج کوختم کرنے کے لئے صریح اور واضح نہیں ہے، ہاں، اگر سیاق وسباق کے پیش نظر ان الفاظ سے خاوند کی نیت اپنی بیوی کوطلاق دینے کی تھی توان الفاظ سے طلاق ہو جائے گی، جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک منکوحہ کوطلاق دینے کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے کہ تو’’ اپنے گھر چلی جا۔‘‘ [صحیح بخاری ، الطلاق:۵۲۵۴] چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت طلاق دینے کی تھی، اس لئے سیاق و سباق کے پیش نظر یہ الفاظ طلاق کے لئے کافی تھے۔ لیکن جب یہی الفاظ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کے لئے استعمال کئے: ’’تو اپنے گھر چلی جا۔‘‘ [صحیح بخاری ، المغازی : ۴۴۱۸] توان الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی نیت طلاق کی نہ تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک باب بایں الفاظ قائم کیا ہے۔ ’’جب خاونداپنی بیوی سے کہے کہ میں نے تجھ کوالگ یا آزاد کیایاکوئی لفظ جس سے طلاق کامفہوم لیاجاسکتا ہوتومعاملہ اس کی نیت پرمحمول ہوگا ۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب الطلاق] ان حقائق کے پیش نظر صورت مسئولہ میں اگران الفاظ سے خاوند کی نیت طلاق دینے کی تھی توطلاق واقع ہوجائے گی۔ بصورت دیگر طلاق نہیں ہو گی، تاہم خاوند کوچاہیے کہ اگر اپنی بیوی کوطلاق نہیں دیناچاہتا تواس طرح کے ذومعنی الفاظ استعمال کرنے سے بھی گریز کرے، کیونکہ معاشرتی طورپر ایسے الفاظ سے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔ [واللہ اعلم بالصواب] سوال: ایک آدمی نے اپنی بیوی کوطلاق دینے کے بعد دوسرے دن اپنی مطلقہ بیوی کی بھتیجی سے نکاح کرلیا ہے ۔ کیا شریعت میں ایسا کرنے کی اجازت ہے؟ جواب: جب آدمی اپنی بیوی کوطلاق دیتا ہے توطلاق دیتے ہی اس کانکاح ختم نہیں ہو جاتا بلکہ عدت گزرنے تک وہ بدستور اس کی بیوی رہتی ہے۔ اس دوران اگر وہ فوت ہوجائے تواس کی جائیداد کاخاوند حقدار ہو گا، اسی طرح اگرخاوندفوت ہوجائے تواس کے ترکہ سے مطلقہ بیوی کوحصہ ملے گا۔ عدت گزرنے کے بعد نکاح ختم ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ دوران عدت رجوع کرنے سے نکاح جدید کی ضرورت نہیں ہے۔ صورت مسئولہ میں چونکہ طلاق کے بعد اس کی بیوی ابھی دوران عدت ہے اوراس کی بدستوربیوی ہے اس دوران اس عورت کی بھتیجی یابھانجی سے نکاح نہیں ہوسکتا نہ ہی اس عورت کی بہن سے نکاح ہو سکتا ہے۔ ان کے علاوہ کسی بھی عورت سے نکاح کیاجاسکتا ہے بشرطیکہ طلاق یافتہ اس کی چوتھی بیوی نہ ہو۔ [واللہ اعلم ] سوال: ایک شخص نے بحالت غصہ اپنی بیوی کودوگواہوں کے سامنے طلاق دے دی ۔تیسرے روز ایک ہزار روپیہ حق مہر کے عوض اس عورت سے نکاح کرلیا ،اس نکاح کی شرعاًکیاحیثیت ہے؟ جواب: مطلقہ بیوی دوران عدت بیوی ہی رہتی ہے۔ عدت گزرنے کے بعد نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ پہلی یادوسری طلاق کی صورت میں عدت کے بعد ایسی عورت سے نیانکاح کرکے رجوع ممکن ہے ۔تیسری طلاق کے بعد رجوع کی کوئی صورت نہیں رہتی۔