کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 362
٭ لعان کے بعد جوجدائی عمل میں آتی ہے وہ آیندہ زندگی میں باہمی نکاح کرنے کے لئے رکاوٹ کا باعث ہے کسی بھی صورت میں ان کاآپس میں نکاح نہیں ہوسکتا ہے، جیساکہ حدیث میں ہے ۔ان دوصورتوں کے علاوہ کوئی ایسی صورت نہیں کہ دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے ازدواجی تعلقات ختم ہونے پر دوبارہ میاں بیوی کانکاح نہ ہوسکتا ہو۔صورت مسئولہ میں یہاں بیوی کی علیحدگی بذریعہ خلع عمل میں آئی ہے، لہٰذااگرعورت اپنے موقف سے دستبردارہوکر دوبارہ اپنے سابقہ خاوندکے ہاں آبادہونے کی خواہش مند ہے توشرعی نکاح کرنے کے بعد ازدواجی زندگی گزارنے میں شرعاًکوئی قباحت نہیں ہے، البتہ نکاح جدید میں ان تمام شرائط کوملحوظ رکھناہوگا جونکاح کے لئے ضروری ہیں ۔ [واللہ اعلم ]  میں عرصہ تین سال سے شادی شدہ ہوں میراخاوند ناگفتہ بہ غیراخلاقی حرکات کاعادی ہے۔ میں تین سال سے اپنے والدین کے ہاں قیام پذیرہوں۔ اس دوران مجھے کوئی نان ونفقہ نہیں دیاگیا ۔برادری کے طورپر میرے والدین نے باہمی صلح کی بہت کوشش کی ہے لیکن میراخاوند اس پرآمادہ نہیں ہوا۔اس کاکہنا ہے کہ نہ تونباہ کرنااور نہ ہی طلاق دینا ہے۔ اب قرآن وحدیث کی روشنی میں میرے متعلق جو حکم ہے ا س کی نشاندہی کی جائے تاکہ میں مستقبل کے متعلق کوئی واضح فیصلہ کر سکوں؟  شریعت اسلامیہ میں طلاق دینا اگرچہ خاوند کاحق ہے، لیکن یہ بھی زیادتی ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات کشیدہ ہو جائیں اوران دونوں میں کسی طرح نباہ نہ ہوسکتا ہو،مگر شوہر طلاق دینے پرآمادہ بھی نہ ہوتوسنگین حالت میں بھی عورت اپنے خاوند کاظلم و ستم برداشت کرتی رہے اورخاوند کی طرف سے طلاق کے انتظار میں اپنی زندگی کواجیرن بنائے رکھے ۔اس صورت میں اسلام نے عورت کویہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے خاوند کوکچھ دے دلاکر اس سے طلاق حاصل کرے ۔اس طرح طلاق لینے کوشریعت کی اصطلاح میں خلع کہاجاتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگرتمہیں یہ خوف ہوکہ وہ دونوں حدود الٰہی پرقائم نہ رہیں گے توان دونوں کے درمیان یہ معاملہ طے ہوجانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے خاوند کوکچھ معاوضہ دے کرعلیحدگی اختیارکرے ۔‘‘ [۲/البقرہ :۲۲۹] حدیث میں ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے حق مہر واپس دے کراپنے خاوند سے خلع حاصل کرلیاتھا ۔ [ابوداؤد ، الطلاق: ۵۲۷۶] خلع کی صورت میں بہتر ہے کہ عورت باہمی رضامندی سے اپنے گھر میں ہی کوئی معاملہ طے کر لے۔اگر خاوند اس پررضامند نہ ہو،جیسا کہ صورت مسئولہ میں ہے تو عورت کوچاہیے کہ وہ حاکم وقت یااس کی قائم کردہ عدالت میں حاضر ہوکر استغاثہ پیش کرے اور بذریعہ عدالت اپنے خاوند سے خلع حاصل کرے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاحضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کویہ حکم دینا کہ تم اپناباغ واپس لے لواوربیوی کوطلاق دے دو۔اس بات کابین ثبوت ہے کہ میاں بیوی میں ناچاقی کے وقت عورت کی درخواست پرخلع کرواناعدالت کاکام ہے۔ بشرطیکہ وہ عدالت اپنے طورپر مطمئن ہوجائے کہ فریقین کے لئے باہمی معاشرت میں احکام الٰہیہ کی پابندی کرناممکن نہیں ہے ۔صورت مسئولہ میں اگرواقعی خاوند اپنی بیوی کوطلاق دینے پر آمادہ نہیں ہے توشریعت نے عورت کوحق دیا ہے کہ وہ عدالت کے ذریعے خلع کی ڈگری حاصل کرے، پھرتاریخ اجرا سے عدت گزارنے کے بعد نکاح ثانی کرے ۔ [واللہ اعلم] سوال: اگرخاوند اپنی بیوی کوکہے کہ میں نے تجھے آزاد کیاتو اس طرح طلاق ہوجائے گی؟