کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 361
جواب: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن کریم میں نہ صرف زناکوحرام کیا ہے بلکہ ا س کے تمام ذرائع و وسائل اورمقدمات کو بھی حرام قراردیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’زنا کے قریب نہ پھٹکو کیونکہ وہ بہت برافعل اورانتہائی برا راستہ ہے ۔‘‘ [۱۷/بنی اسرائیل :۳۲] اس آیت کریمہ میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ مسلمان صرف فعل زناہی سے بچنے پراکتفا نہ کریں بلکہ زناکے مقدمات اوراس کی ابتدائی حرکات واسباب سے بھی دور رہیں جوانہیں اس راستہ کی طرف لے جاتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جرم زناکی سنگینی کویوں بیان فرمایاہے ’’کہ لذت بھری نگاہ سے کسی عورت کی طرف دیکھنا یہ آنکھوں کی بدکاری ہے اور بدکاری کی نیت سے مزے لے لے کرلوچ دارگفتگو کرنازبان کی بدکاری ہے جبکہ شرم گاہ سے اس فعل بد کوانجام دینااس جرم میں شریک تمام اعضا کے لئے مہر تصدیق ثبت کرنا ہے۔‘‘ شریعت ان مقدمات زنااور اس کے اسباب ووسائل کوفعل زنا قرارنہیں دیتی کہ ان کے بجالانے پر حدزناجاری کردی جائے جب تک عملی طورپر اس سے زنا کاارتکاب نہ ہواسے مجرم قرار نہیں دیاجاسکتا ۔صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے جوطریق کاراختیار کیا ہے اسے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا ،بلکہ وہ انتہائی خطرناک اوربرارستہ تھا، تاہم اس سے بالفعل زنا کاصدورنہیں ہوا، اس لئے مذکورہ شخص اس عورت کی لڑکی سے نکاح کرسکتا ہے جس سے مقدمات زنا انجام دیتا رہا ہے، کیونکہ قرآن کریم نے ایسے خونی، رضاعی اورسسرالی رشتوں کے متعلق بڑی تفصیل سے ہمیں آگاہ کیا ہے جوانسان پرحرام ہیں۔ ان میں اس قسم کے تعلقات رکھنے والی عورت کاتذکرہ نہیں ہے اورنہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی کوئی پابندی منقول ہے، لہٰذا مذکورہ شخص پرصرف اس لئے پابندی عائد کرنا کہ وہ مقدمات زناکامرتکب ہوا مناسب نہیں اوراس کاشریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ [واللہ اعلم] سوال: ہندہ کی شادی زید سے ہوئی دوسال بعد ان میں اختلافات پیدا ہوگئے اورہندہ نے زید سے علیحدگی کامطالبہ کر دیا اوراپنی مرضی سے بذریعہ عدالت خلع لے لیا۔اب ہندہ دوبارہ زید کے ہاں آباد ہوناچاہتی ہے، کیاکتاب وسنت کی رو سے ایسا ممکن ہے ؟ جواب: عارضی زندگی میں شرعی طورپر طلاق دینا خاوندکاحق ہے لیکن اگرمیاں بیوی کے تعلقات اس حدتک کشیدہ ہو جائیں کہ باہمی اتفاق کی کوئی صورت نہ رہے اورخاوند طلاق دینے پر بھی آمادہ نہ ہو توایسے حالات میں اسلام نے عورت کوحق دیا ہے کہ وہ اپنے خاوند کوکچھ دے دلاکر اس سے خلاصی حاصل کرے، اسے شریعت میں خلع کہتے ہیں ۔اس کے لئے شرط یہ ہے کہ میاں بیوی کوازدواجی زندگی میں حدوداللہ کے پامال ہونے کااندیشہ ہو۔اس وضاحت کے بعد دین اسلام میں بیوی کے ازدواجی تعلقات ختم ہونے پردوصورتیں ایسی ہیں کہ وہ عام حالات میں اکٹھے نہیں ہوسکتے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ جب خاوند اپنی زندگی میں وقفے وقفے کے بعد تین طلاقیں دے ڈالے توہمیشہ کے لئے مطلقہ عورت اپنے سابقہ خاوند کے لئے حرام ہوجاتی ہے، البتہ تحلیل شرعی کے بعد اکٹھا ہونے کی گنجائش ہے۔ واضح رہے کہ تحلیل شرعی مروجہ حلالہ نہیں کیونکہ ایساکرنا حرام اورباعث لعنت ہے ۔