کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 353
دے گی؟‘‘ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے عرض کیا کیوں نہیں، بلکہ اس سے زیادہ بھی دوں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زیادہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں، صرف باغ ہی واپس لوٹا دے۔‘‘ [دارقطنی:۳/۳۳۵] ایک روایت میں بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی کواس کاباغ واپس کردینے کے متعلق کہاتوخاوند کوحکم دیا کہ اپنا باغ وصول کرلو اوراس سے زیادہ وصول نہ کرو۔ [ابن ماجہ ،الطلاق:۲۰۵۶] اگرچہ بعض روایات میں اس عورت کی طرف سے زیادہ دینے کے الفاظ بھی ملتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی طرف سے حق مہر سے زیادہ دینے کوبرقرارنہیں رکھا، پھر یہ روایت محدثین کرام کے معیارصحت پرنہیں اترتی۔ اگرصحیح بھی ہو تو زیادہ دیناعورت کی اپنی صوابدیدپر موقوف ہے ۔آدمی کی طرف سے مطالبے کے پیش نظر ایسا نہیں کیاگیا ۔اس بنا پر خاوند کو چاہیے کہ وہ حق مہر سے زیادہ وصول نہ کرے جواس نے بیوی کودیا ہے ویسے بھی حق مہر سے زیادہ وصول کرنااخلاقی اصولوں کے خلاف معلوم ہوتا ہے لیکن عقل سلیم اس کی اجازت نہیں دیتی۔ [واللہ اعلم بالصواب] سوال: ایک عورت کی شادی کوپندرہ، سولہ سال گزرچکے ہیں شادی کے چارسال تک اپنے خاوند کے گھر آباد رہی، اس کاخاوند کویت چلاگیا اور وہاں سے تین طلاقیں روانہ کردیں۔ عدالت میں نان ونفقہ کادعویٰ بھی ہوا، فیصلہ لڑکی کے حق میں ہوا عدالت میں لڑکی نے کئی بار طلاق وصول کرنے کااقرار کیااب گیارہ بارہ سال بعد لڑکے والے کہتے ہیں کہ ہم نے طلاق نہیں دی لڑکی والوں نے تسلیم کرکے لڑکی کوروانہ کردیا ہے آپ اس بات کی وضاحت کریں کہ طلاق ہوئی ہے کہ نہیں، واضح رہے کہ لڑکی کے ہاں طلاق کے بعد لڑکا بھی پیداہوا ہے؟ جواب: بشرط صحت سوال واضح ہو کہ مذکورہ صورت مسئولہ کے متعلق لڑکی یالڑکے والوں کودریافت کرناچاہیے بالآخر ہمیں کسی کے داخلی معاملات میں کیوں اتنی دلچسپی ہے بیان کردہ صورت حال سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے نے طلاق نامہ بھیجا ہے اورعدت گزرنے کے بعد رجوع کیاہے، چونکہ کتاب وسنت کی روسے ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے ایک طلاق ہوتی ہے، اگرچہ اس طرح طلاق دینا انتہائی قبیح حرکت ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اس عمل پراظہار ناراضی فرمایا ہے بلکہ اسے کتاب اللہ کے ساتھ کھیلنابھی قراردیا ہے۔ [نسائی، الطلاق: ۳۰۳۰] حدیث میں بیان ہے کہ حضرت رکانہ بن عبدیزید رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنی بیوی کوایک ہی دفعہ تین طلاق کہہ دی تھیں ۔اس کے بعدبہت پریشان ہوئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس بات کاعلم ہوا توآپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ ’’طلاق کیسے دی تھی؟‘‘ عرض کیا کہ ایک ہی مجلس میں تین طلاق کہہ دی تھیں۔ آپ نے فرمایا:’’ یہ تو ایک رجعی طلاق ہے اگر تم چاہو تورجوع کرسکتے ہو۔‘‘ چنانچہ اس نے دوبارہ رجوع کرکے اپناگھرآبادکرلیا ۔ [مسندامام احمد ،ص: ۴۵،ج ۱] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث طلاق دلانے کے متعلق فیصلہ کن اورصریح نص کی حیثیت رکھتی ہے جس کی اورکوئی تاویل نہیں ہوسکتی ۔ [فتح الباری، ص: ۳۶۲،ج ۹] چونکہ طلاق کے بعد لڑکے کی پیدائش سے عدت ختم ہوچکی تھی، اس لئے رجوع کے لئے نئے نکاح کی ضرورت تھی جویقیناہوا