کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 352
جواب: عرب معاشرہ میں بسااوقات یہ صور ت پیش آتی تھی کہ جب میاں بیوی کاکسی معاملہ میں جھگڑاہوجاتا توخاوند غصہ میں آکر کہتا: ’’تومیرے لئے میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے ۔‘‘مطلب یہ ہوتا ہے کہ تجھ سے مباشرت کرنامیرے لئے ایسا ہے جیسے اپنی ماں سے مباشرت کروں۔اسے شریعت کی اصطلاح میں ’’ظہار‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے نادان لوگ بیوی سے لڑ کر اسے ماں ،بہن اوربیٹی سے تشبیہ دے بیٹھتے ہیں مطلب یہ ہوتا ہے کہ گویا آدمی اب اسے بیوی نہیں بلکہ ان عورتوں کی طرح سمجھتا ہے جواس کے لیے حرام ہیں ۔اس فعل کانام ’’ظہار‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی بات کوناپسندید ہ اورجھوٹی بات قراردیا ہے اورکفارہ کے طورپر اس کی کچھ سزا بھی رکھی ہے، جس کی تفصیل سورۂ مجادلہ میں بیان ہوئی ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ اپنی بیوی کوایسے کلمات کہنا ایک بہت بڑاگناہ اورحرام فعل ہے۔ اس کامرتکب سزا کاحق دار ہے۔ لیکن جوشخص اپنی بیوی کوماں یابہن کہہ دیتا ہے تشبیہ وغیرہ نہیں دیتا کیایہ صورت بھی ظہار ہوگی یانہیں ؟اس میں کچھ اختلاف ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کویہ کہتے ہوئے سنا کہ اپنی بیوی کوبہن کہہ کرپکاررہاتھا ۔اس پر آپ نے بطورغصہ فرمایا :’’کیا یہ تیری بہن ہے؟‘‘ آپ نے اسے ناپسند کرتے ہوئے منع فرمایا ہے ۔ [ابوداؤد ،الطلاق :۲۲۱۰] اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کوماں یابہن کہنے سے ظہار تونہیں ہوتا، البتہ سخت بے ہودہ بات ضرور ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، البتہ مالکی حضرات اسے بھی ظہار قراردیتے ہیں۔ حنابلہ کے ہاں اس میں کچھ تفصیل ہے کہ اگر ایسے کلمات بحالت غصہ کہے جائیں توظہار ہوگا۔ اگر پیار ومحبت کی بات کرتے ہوئے ایسے کلمات کہہ دیے جائیں توانتہائی ناپسندیدہ حرکت ہے لیکن اسے ظہارنہیں قراردیاجائے گا۔ صورت مسئولہ میں خاوند نے اپنی بیوی کو ماں، بہن کہا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ ظہارنہیں ہے کیونکہ اس نے ابدی محرمات میں سے کسی عورت کے کسی ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ نہیں دی ،جس پر اس کانظر ڈالنا حرام تھا۔ طلاق تو کسی صورت میں نہیں ہے چونکہ سائل نے ایک بے ہودہ اورناپسندیدہ بات کہی ہے، اس لئے اسے چاہیے کہ اس گناہ کی تلافی کے لئے صدقہ وخیرات کرے اور آیندہ ایسی حرکت کرنے سے توبہ کرے ،کیونکہ ایساکرنامؤمن کی شان کے خلاف ہے ۔ [واللہ اعلم] سوال: خلع کی صورت میں عورت سے حق مہر سے زیادہ مال وصول کیاجاسکتا ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی رو سے اس کاجواب درکار ہے۔ جواب: عورت کا اپنے شوہر کو کچھ دے دلا کر اس سے طلاق حاصل کرنا ’’خلع‘‘ کہلاتا ہے۔ کیا خاوند کوحق مہر سے زیادہ مال وصول کرنے کی اجازت ہے یا نہیں ؟اس کے متعلق بعض فقہا نے یہ موقف اختیارکیاہے کہ اگرعورت قصوروار ہونے کے باوجود طلاق کا مطالبہ کرتی ہے توخاوند کو حق مہر سے زیادہ وصول کرنے کی اجازت ہے، لیکن محدثین کرام نے فقہا کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا ۔انہوں نے ا س بات کو ناپسند کیا ہے کہ جومال شوہرنے بیو ی کودیا ہے اس سے زیادہ کامطالبہ کیاجائے۔ اگرچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ بیوی خاوند کی باہمی رضامندی پرموقوف ہے، لیکن احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حکم عام نہیں ہے بلکہ زیادہ دینے یاوصول کرنے سے منع کیا جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب حضرت ثابت بن قیس انصاری رضی اللہ عنہ کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے خاوند سے طلاق لینے کامطالبہ کیاتو آپنے فرمایا: ’’کیاتو اس کاحق مہر میں دیاہوا باغ واپس کر