کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 350
جنت کے حرام ہونے کی وعید سنائی ہے جواپنے گھر میں برائی دیکھ کر اسے ٹھنڈے پیٹ برداشت کرلیتا ہے۔لڑکیوں کے متعلق تو خاص ہدایت ہے کہ ’’جونہی مناسب رشتہ ملے ان کانکاح کرنے میں دیر نہ کی جائے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت علی رضی اللہ عنہ کویہ وصیت کی تھی کہ ’’تین کاموں میں دیرنہ کرنا، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب لڑکی کے لئے مناسب رشتہ مل جائے تواس کانکاح کرنے میں لیت ولعل سے کام نہیں لینا چاہیے۔‘‘ حدیث میں یہ بھی ہے کہ ’’اخلاقی اور دینی طورپر مناسب رشتہ ملنے کے باوجود اگرکوئی ’’بلند معیار‘‘ کی تلاش میں دیرکرتا ہے تووہاں ضرورفتنہ فسادرونما ہوگا ۔‘‘صورت مسئولہ میں ہم اس حقیقت کانمایاں طورپر مشاہدہ کرتے ہیں کہ والدین کواولاد کی اس حرکت شنیعہ کاعلم ہے ۔اس کے باوجود خاموش تماشائی کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ آخر اس بدکاری پر نوبت یکبار نہیں پہنچ جاتی ،بلکہ اس سے پہلے کچھ مقدمات اورابتدائی محرمات ہوتے ہیں جوبدکاری کے راستہ کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس مقام پرہماراسوال یہ ہے کہ بدکاری کے مقدمات ،محرکات اور اسباب کے سدباب کے لئے والدین نے کیا کردار سرانجام دیا ہے۔ قرآن پاک نے نہ صرف زنا سے روکا ہے بلکہ اس کے ابتدائی محرکات کابھی راستہ بند کیا ہے اوران تمام شرمناک افعال سے منع کیا ہے جوبدکاری کاسبب بن سکتے ہیں ۔ان ابتدائی گزارشات کے بعد ہم صورت مسئولہ کاجائزہ لیتے ہیں کہ صفائی کے بعد والدین کی رضامندی سے جونکاح ہوا ہے وہ شرعاًدرست اورجائز ہے۔ اب انہیں چاہیے کہ اللہ کے حضور نہایت عاجزی اورندامت کے جذبات سے توبہ کریں اورآیندہ اس قسم کی نازیبا حرکات سے اجتناب کرنے کاعزم کریں وگرنہ قرآن مجید کی روسے یہ بھی صحیح ہے کہ ’’بدکار مرد،ناہنجار عورت سے ہی نکاح کرتا ہے ۔‘‘ [۲۴/النور:۳] پھراس سلسلہ میں جن مشکلات ومصائب کاسامنا کرناپڑے گاوہ بہت سنگین ہیں، اس لئے بہتر ہے کہ توبہ کرکے اپنی آیندہ زندگی کوپاکیزہ کریں اور خوش اسلوبی سے بقیہ ایام گزارنے کاعزم رکھیں۔ توبہ کرنے سے سابقہ گناہ نہ صرف معاف ہوجاتے ہیں بلکہ اگراخلاص ہوتو پہلے گناہ نیکیوں میں بدل جاتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی وضاحت موجودہے ۔ [۲۵/الفرقان :۷۰] سوال: میرے داماد نے میری بیٹی کوطلاق دی، پھر رجوع کر لیا، کچھ عرصہ راضی خوشی رہے ،اس دوران بیٹی کو حمل ٹھہراتواس نے پھرطلاق دے دی اوروضع حمل سے پہلے رجوع کرلیا وضع حمل کے بعد اس نے تیسری دفعہ طلاق دے دی ،اب ہمارے لئے شرعی حکم کیا ہے؟ جواب: بشرط صحت سوال واضح ہو کہ دین اسلام کے بیان کردہ ضابطہ طلاق کے مطابق خاوند کوزندگی بھر تین طلاق دینے کااختیار ہے، پہلی اوردوسری طلاق کے بعد حق رجوع باقی رہتا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ اگر دوران عدت رجوع کر لیا جائے تونکاح جدید کی ضرورت نہیں ،لیکن عدت گزرنے کے بعد نکاح جدید کے بغیر رجوع نہیں ہوسکے گا ۔تیسری طلاق کے بعد حق رجوع ختم ہو جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پھراگرشوہر (دودفعہ طلاق دینے کے بعد تیسری )طلاق دیدے تو اس کے بعد جب تک کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے اس (پہلے خاوند)پرحلال نہ ہوگی ۔‘‘ [۲/البقرہ:۲۳۰] حدیث کے مطابق آیت مذکورہ میں نکاح سے مراد مباشرت ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ یہ نکاح بھی گھربسانے کی نیت سے کیا جائے ،کوئی سازشی یامشروط نکاح نہ ہو،جیسا کہ ہمارے ہاں بدنام زمانہ ’’حلالہ ‘‘کیاجاتا ہے ،کیونکہ ایساکرناحرام اورباعث