کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 349
سوال: میرے سسر کی دوبیویاں ہیں ایک بیوی کی بیٹی میرے نکاح میں ہے دوسری بیوی کے متعلق شرعاً کیا حکم ہے کیاوہ مجھ پرحرام ہے اوروہ مجھ سے پردہ کرے گی، اگر سسر اسے طلاق دے دیتا ہے توکیامیں اس سے نکاح کرسکتا ہوں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیا جائے ۔ جواب: سسر کی دوسری بیوی محرمات میں شمارنہیں ہوگی کیونکہ وہ بیوی کی والدہ نہیں ہے۔ قرآن کریم نے بیوی کی والدہ کو محرمات میں شمار کیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’تمہاری بیویوں کی مائیں (بھی تم پرحرام کردی گئی ہیں )۔‘‘ [۴/النسآء:۲۳] اس کے علاوہ سسر کی دوسری بیوی کے حرام ہونے کے متعلق قرآن وحدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ جبکہ حرمت دلائل سے ثابت ہوتی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے محرمات کاذکر فرمایا توواضح طورپر ارشاد فرمایاکہ ’’ان کے علاوہ اورتمام عورتیں تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں ۔‘‘ [۴/النسآء:۲۴] امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مرد کی بیوی اوراس کی دوسری بیوی کی بیٹی دونوں کوایک نکاح میں جمع کرناجائز ہے اکثر علما نے اس کے جواز کافتویٰ دیا ہے، البتہ بعض اسلاف نے اسے ناپسند کیا ہے۔ [جامع العلوم، ص: ۴۱۱] امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی شخص کی بیوی اور اس کی کسی اوربیوی سے بیٹی دونوں کوجمع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [ کتاب الامّ، ص: ۱۵۵،ج ۷] امام ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مرد کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی عورت اور اس کے والد کی دوسری بیوی کوجمع کرے کیونکہ اس کے حرام ہونے کے متعلق کوئی نص نہیں ہے۔ [محلٰی ابن حزم، ص: ۵۳۲،ج ۹] ان دونوں عورتوں کے درمیان کوئی قرابت نہیں ہے اور یہ دونوں اجنبیوں کی طرح ہیں، اس لئے انہیں بیک وقت نکاح میں جمع کیاجاسکتا ہے، چونکہ آپ اس دوسری بیوی کے داما د نہیں ہیں، اس لئے وہ آپ سے پردہ کرے گی،کیونکہ وہ آپ کے لئے ایک اجنبی عورت کی طرح ہے۔ اس سے خلوت کرنااس کامحرم بن کراس کے ساتھ سفر کرنابھی جائز نہیں ہے۔ دامادی کارشتہ صرف اس عورت سے قائم ہوتا ہے جس کی بیٹی کاآپ سے نکاح ہوا ہے، البتہ آپ کے سسر کے بیٹے کے لئے وہ حرام ہوگی کیونکہ وہ اگرچہ اس کی ماں نہیں لیکن باپ کی منکوحہ ضرورہے۔ بہرحال سسر کی بیوی داماد کے لئے محرمات میں شامل نہیں ہوگی اور نہ ہی اس کے ساتھ نکاح کرناحرام ٹھہرے گا ۔ [واللہ اعلم] سوال: ایک لڑکے نے کسی لڑکی سے ناجائز تعلقات استوار کئے جس کے نتیجہ میں ناجائز حمل قرارپاگیا ،ان کے والدین کواس حرکت کاعلم تھا۔اب حمل ضائع کرکے لڑکے اورلڑکی کے اصرار پران کانکاح کر دیا گیا ہے تاکہ عدالت کی گرفت میں نہ آسکیں۔ واضح رہے کہ نکاح دونوں والدین کی اجازت اوررضامندی سے ہوا ہے کیا ایسا نکاح کرنا شرعاًجائز ہے؟ جواب: قرآن مجید میں جہاں والدین کے حقوق بیان کئے گئے ہیں وہاں ان کے فرائض وواجبات کی نشاند ہی بھی کی گئی ہے انہیں اس بات کاپابند کیاگیا ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت کابندوبست کریں ۔اپناگھریلو ماحول صاف ستھراا ورپاکیزہ رکھیں، معاشرتی برائیوں کے سلسلہ میں اپنی اولاد کی کڑی نگرانی کریں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ’’دیوث ‘‘پرلعنت فرمائی ہے اوراس پر