کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 347
ایسی عورت بھی عدت کے ایام اپنے خاوند کے گھر میں پورے کرے ،البتہ اس حکم سے درج ذیل دوصورتیں مستثنیٰ ہیں: (الف) اگرعورت خانہ بدوش ہے اورکسی مقام پرپڑاؤ ڈالے ہوئے ہے اگر اس کاخاوند فوت ہوجائے تواس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ چارماہ دس دن اسی طرح ایک مقام پرگزارے بلکہ وہ جہاں قافلہ ٹھہرے گا اس کے ساتھ ہی اپنے ایام عدت گزارتی رہے گی۔ (ب) میاں بیوی کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ خاوند کے فوت ہونے کے بعد آمدنی کے ذرائع مسدود ہوگئے جس کی وجہ سے کرایہ کی ادائیگی طاقت سے باہر ہوتو اس صورت میں بھی وہ کم کرایہ والے مکان میں منتقل ہوسکتی ہے ۔ بعض اہل علم حدیث کے الفاظ ’’جہاں تجھے خاوند کے فوت ہونے کی خبر ملے۔‘‘ سے عورت کوپابند کرتے ہیں کہ وہ وہیں ایام عدت گزارے۔ جہاں اسے وفات کی خبر ملی ہے، خواہ وہ کسی کے پاس بطورمہمان ہی ٹھہری ہو ئی ہو۔اس طرح کی حرفیت پسندی اور بے جاپابندی شریعت کی منشا کے خلاف ہے۔ دوران عدت انتہائی ضروری کام کے لئے گھر سے نکلنے کی اجازت ہے لیکن اس صورت میں بھی رات گھر واپس آنا ضروری ہے۔ صورت مسئولہ میں ایام عدت میں خاوند کی قبر پرجانا کوئی ضروری امر نہیں ہے۔ جب عدت کے ایام پورے ہوجائیں تو پھرشریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے خاوند کی قبر پرجانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ [واللہ اعلم ] سوال: افتخار نامی ایک شخص نے پہلی بیوی کی موجودگی میں عقد ثانی کاارادہ کیا دوسری بننے والی بیوی نے پہلی بیوی کو طلاق دینے کی شرط عائد کی، چنانچہ موصوف نے اسے مطمئن کرنے کے لئے پہلی بیوی کے نام طلاق تحریر کر کے دوسری ہونے والی بیوی کے حوالے کردی کہ تم اس تحریر کوخودہی ارسال کردو۔اس نے تحریر کواپنے پاس رکھا ،اس طرح شادی ہوگئی دوسری طرف سے اس نے پہلی بیوی سے کہہ دیا کہ اگر تجھے میر ی طرف سے تحریر ملے تو اسے وصول نہ کرنا یااسے پھاڑدینا ،اس نکاح جدید کے دوسال تین ماہ بعد پہلی بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہو اجواس کے ساتھ رہائش رکھے ہوئے تھی۔ جب دوسری بیوی کواس کاعلم ہوا تواس نے طلاق نامہ مع اپنانکاح نامہ پہلی بیوی کوارسال کردیا ۔جب اس کے والدین کوپتہ چلا تووہ اپنی لڑکی کوافتخار کے گھر سے لے گئے ۔اب اس کاموقف ہے کہ میں نے طلاق نامہ خوشی سے نہیں لکھا تھا بلکہ مجبوری اوردوسری سے نکاح کے لالچ میں تحریر کیا تھا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا یہ طلاق واقع ہوچکی ہے، افتخار کااس دوران پہلی بیوی کے پاس رہنا درست تھا، کیا پہلی بیوی سے رجوع ہوسکتا ہے یانہیں؟ کیونکہ اس نے تینوں طلاق بیک وقت تحریر کردی تھیں۔ جواب: صورت مسئولہ میں نکاح ثانی کے وقت دین سے ناواقفی کی بنا پر کئی ایک غیرشرعی کام ہوئے ہیں پہلا تو یہ کہ کسی عورت کا پہلی بیوی کوطلاق دینے کا مطالبہ کرناشرعاًدرست نہیں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق واضح طورپر منع کیاہے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’کوئی عورت نکاح کے وقت اپنی بہن کی طلاق کامطالبہ نہ کرے تاکہ اس کے برتن کوانڈیل کررکھ دے۔‘‘ [صحیح بخاری ، الشروط :۲۷۲۳] دوسری روایت میں ہے کہ اسے تووہی کچھ ملے گا جواس کا مقدر ہے۔ (اس لئے مطالبہ طلاق کے بغیر ہی نکاح کرے) [صحیح بخاری ،النکاح :۵۱۵۲]