کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 346
قراردیا جائے، اس لئے بچی کے والدین فریق ثانی سے طلاق لئے بغیر آگے نکاح کرسکتے ہیں۔اسی طرح بڑی لڑکی کے والدین کاان سے چالیس ہزار روپے کامطالبہ کرنابھی درست نہیں ہے ۔کیونکہ ایسا کرناصریح ظلم ہے جس کے متعلق شریعت اجازت نہیں دیتی ہے، نیزایک حدیث کے مطابق جوشرط کتاب اللہ سے ٹکراتی ہو اوراس کاثبوت شریعت میں نہ ملتاہووہ سرے سے باطل ہوتی ہے۔ اس لئے نکاح کے ساتھ یہ شرط بھی کالعدم قرارپائے گی اگرچھوٹی لڑکی والے طلاق لینے پراصرار کرتے ہیں تو بڑی لڑکی والوں کو چاہیے کہ وہ اسے اپنی عزت کامسئلہ نہ بنائیں بلکہ اپنی لڑکی کاگھر بسانے کے لئے چھوٹی لڑکی کوطلاق دے دیں اور ہر قسم کے مطالبہ سے دستبردار ہوجائیں ۔ ویسے شریعت مطہرہ نے لڑکی کوبالغ ہونے کے بعد یہ اختیار دیاہے کہ اگروہ چاہیے توبچپن میں ہونے والے نکاح کومسترد کردے لیکن یہ خیار بلوغ صرف اس صورت میں استعمال کیا جا سکتا ہے کہ وہ بلوغت کے فوراًبعد نکاح کے متعلق اپنی ناگواری کااظہار کردے ۔یہ اختیار عرصۂ دراز تک کے لئے حاصل نہیں رہتا ۔الغرض چھوٹی بچی کانکاح شغار ہونے کی بناپر کالعدم ہے اوراس کے سرپرست آگے نکاح کرنے کے مجاز ہیں۔ اسی طرح کسی فریق کادوسرے سے رقم وغیرہ کامطالبہ کرنا بھی شرعاًصحیح نہیں ہے۔ [واللہ اعلم] سوال: اگرخاوند فوت ہوجائے تو بیوہ ایام عدت کہاں گزارے، اپنے خاوند کے گھریا جہاں وہ اپنے خاوند کے فوت ہونے کی اطلاع پائے، نیزیہ بھی بتایا جائے کہ دوران عدت اپنے خاوند کی قبر پر جاسکتی ہے یا نہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کا حل پیش کریں۔ جواب: عورت نے جس خاوند کے ساتھ زندگی کے ا یام گزارے ہیں اس کے حق رفاقت و وفاداری اور اس کے رشتہ داروں کے ساتھ ہمدردی وغمگساری کاتقاضا یہ ہے کہ خاوند کے مرنے کے بعد اس کی بیوی عدت کے ایام اپنے خاوند کے گھر میں گزارے، خواہ وہ مکان تنگ ہو یاتاریک اورکتناہی وحشت ناک کیوں نہ ہو، چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہا کا خاوند گھر سے باہر کسی دوسرے مقام پرقتل کردیا گیا اوراس کامکان انتہائی وحشت ناک مقام پر واقع تھا۔ پھر وہ اس کی ملکیت بھی نہ تھا۔ بیوہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ مجھے والدین اوربہن بھائیوں کے ہاں منتقل ہونے کی رخصت دی جائے تاکہ عدت کے ایام امن وسکون سے وہاں گزارسکوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اپنے اس گھر میں رہو جہاں تجھے خاوند کے فوت ہونے کی خبرملی ہے یہاں تک کہ عدت کے ایام پورے ہو جائیں۔‘‘ [مسند امام احمد، ص: ۳۷۰،ج ۳] بعض احادیث میں ہے کہ اپنے گھر میں بیٹھی رہو ۔ [نسائی ،طلاق:۳۵۵۸] یعنی کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کی ضرورت نہیں ۔ حضرت عمر اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہما اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرتے تھے ۔البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف ہے کہ عورت عدت گزارنے کی پابند ہے، خواہ وہ کہیں گزارے ۔ [نسائی ،الطلاق:۳۵۶۱] واضح رہے کہ حدیث میں تو یہ صورت ہے کہ عورت اپنے گھرمیں تھی جبکہ خاوندباہر گیاتھا اوروہیں فوت ہوگیا ،اگرخاوند اپنے گھر میں فوت ہوااوراس کی بیوی اس وقت گھر میں موجودنہ ہو تو اس کے متعلق الفاظ اورحدیث اورحکمت حدیث کاتقاضا یہی ہے کہ