کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 345
بیوی کوتکلیف دینے کی غرض سے گھرمیں روکے رکھنا اور اس کی ضروریات زندگی فراہم کرنے سے راہ فرار اختیارکرنا کوئی دانشمندانہ اقدام نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کیا ہے ۔ فرمان الٰہی ہے: ’’اورانہیں تکلیف دینے اور ان پرزیادتی کرنے کے لئے مت روکے رکھو‘‘۔ [۲/البقرہ:۲۳۱] جب خاوند اپنی بیوی کی جائز ضروریات زندگی کوپورانہیں کرتااور نہ ہی اس کے دیگر حقوق اداکرتا ہے اس پر مزیدظلم بایں طور کرتا ہے کہ اسے اپنی زوجیت سے بھی الگ نہیں کرتا توایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے عورت کویہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے آپ پر ہونے والے اس ظلم کودورکرنے کے لئے عدالتی چارہ جوئی کرے ۔شریعت نے بھی بعض معاملات میں عدالت کویہ اختیار دیا ہے کہ وہ معاملات کی چھان بین کرنے کے بعد تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کرے ۔صورت مسئولہ میں جب عورت کے سرپرست نے عدالت سے رجوع کیا ہے اورعدالت نے اپنے ذرائع کے مطابق تحقیق کرنے کے بعد عورت کے حق میں تنسیخ نکاح کا فیصلہ دے دیا ہے تواب عورت کوحق ہے کہ عدت گزارنے کے بعد وہ اپنی زندگی کے باقی ماندہ ایام باعزت طورپر گزارنے کے لئے نکاح ثانی کرسکتی ہے اوراس کے لیے شرعاًکوئی امر مانع نہیں ہے ۔ [واللہ اعلم ] سوال: ہمارے خاندان کی دولڑکیوں کانکاح وٹہ سٹہ کے طورپر ہوا بوقت نکاح ایک لڑکی بالغہ تھی اوراس کی رخصتی ہوگئی جبکہ دوسری لڑکی کی رخصتی نابالغہ ہونے کی وجہ سے نہ ہوسکی ۔بڑی لڑکی والوں نے فریق ثانی سے یہ شرط لکھوائی کہ اگرتم نے اپنی لڑکی کی رخصتی نہ کی تومبلغ چالیس ہزار روپیہ ہمیں اداکرناہوگا ۔بڑی لڑکی کے ہاں دوبچے پیداہوئے اور تیسری مرتبہ حاملہ تھی کہ اس کے خاوند نے خودکشی کرلی ۔بعض وجوہات کی بنا پر فریقین میں ناچاقی پیداہوچکی ہے۔ بیوہ کے والدین اپنی لڑکی کی آگے شادی کرنا چاہتے ہیں، جبکہ چھوٹی لڑکی والے اس میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اورمطالبہ کرتے ہیں کہ پہلے ہماری لڑکی کوطلاق دوپھراس کی آگے شادی کرو۔بڑی لڑکی والوں کاموقف ہے کہ حسب شرط (جوتحریر شدہ ہے)تم مبلغ چالیس ہزار روپیہ ادا کرو، پھر ہم تمہاری لڑکی کو طلاق دیں گے۔ایسے سنگین حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔ جواب: ہمارے ہاں معاشرہ میں شریعت سے ناواقفیت کی بنا پر بعض لوگ جاہلانہ رسم و رواج کوبڑی سختی سے تھامے ہوتے ہیں ان میں سے ایک رسم نکاح وٹہ سٹہ ہے جسے عربی زبان میں نکاح شغار کہاجاتا ہے ۔بلاشہ یہ نکاح دورجاہلیت کی یادگار ہے اور اسلام نے اس کے متعلق حکم امتناعی جاری کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’دین اسلام میں نکاح وٹہ سٹہ کاکوئی وجود نہیں ہے۔‘‘ [صحیح مسلم ،النکاح :۱۴۱۵] حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح وٹہ سٹہ سے منع فرما یا ہے۔ [صحیح بخاری ،النکاح :۵۱۱۲] واضح رہے کہ نکاح وٹہ سٹہ ہرصورت میں حرام ہے، خواہ حق مہر رکھاگیا ہویاتبادلہ نکاح کوہی حق مہر قرار دیا گیا ہو۔ان احادیث کے پیش نظر اصولی طورپرصورت مسئولہ میں دونوں نکاح باطل ہیں لیکن لاعلمی کی وجہ سے ایک لڑکی کی رخصتی ہوچکی ہے اوراس کے بطن سے اولاد بھی پیداہوئی ہے، نیز اس کاخاوند بھی فوت ہوچکا ہے اس بنا پر احتیاط کاتقاضا یہی ہے کہ اس کے متعلق گنجائش نکالی جائے، البتہ چھوٹی لڑکی جس کاصرف نکاح ہوا ہے ابھی رخصتی عمل میں نہیں آئی ۔اس کے نکاح کو کالعدم اورباطل