کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 343
تیرکو اپنے ترکش سے نکالنا پڑتا ہے، لیکن اگرشریعت کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق طلاق دی جائے توانسان کو بعد میں ندامت یاشرمندگی کاسامنانہیں کرناپڑتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رواجی طریقہ طلاق کونہ صرف ناپسند فرمایا ہے بلکہ اسے اللہ کی کتاب کے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف قراردیاہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص نے اس انداز میں طلاق دی توآپ بہت ناراض ہوئے ،آپ کی ناراضی کودیکھتے ہوئے ایک دوسرے شخص نے کہااگرآپ مجھے اجازت دیں تومیں اسے قتل کردوں۔ [نسائی، الطلاق: ۳۴۳۰] صورت مسئولہ میں ہمارے نزدیک یہ ایک رجعی طلاق ہے چونکہ سائل نے اپنی بیوی کوماں نہیں کہا ہے، اگرچہ ایسا کہنابہت فضول اورناپسند یدہ بات ہے، تاہم مالکیہ کہتے ہیں کہ یہ بھی ظہار ہے اورحنابلہ کاکہنا ہے کہ اس قسم کی بات اگر جھگڑے اورغصے کی حالت میں کہی گئی ہے توظہارہے۔ بصورت دیگر یہ ظہار نہیں گویا بہت ہی بے ہودہ بات ہے۔ واضح رہے کہ ظہار کا کفارہ ساٹھ مساکین کوکھاناکھلانا ہے ۔ہمارے نزدیک اگرچہ ایسے حالات میں اپنی بیوی کوماں یابہن کہناظہارنہیں ہے کیونکہ ظہار میں تشبیہ کامعنی پایاجانا ضروری ہے جوموجودہ صورت میں نہیں ہے، تاہم شریعت نے اس انداز کوبھی پسند نہیں فرمایا ہے خاوند کو چاہیے کہ وہ آیندہ ایسی حرکات کااعادہ نہ کرے۔ اس بنا پر یاددہانی کاتازیانہ ضرورہوناچاہیے جوآیندہ اس کے سر پر لٹکتا رہے۔ اس کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ وہ ساٹھ مساکین کوکھاناکھلائے اوراللہ کے حضوراپنی توبہ اوراستغفار کانذرانہ پیش کرے ۔ [واللہ اعلم ] سوال: میرابیوی سے جھگڑاہوگیا ہے جبکہ وہ چارماہ کی حاملہ تھی میں اسے میکے چھوڑ آیا، پھراس کی غیرموجودگی میں تین بار طلاق طلاق،طلاق کہہ دیا ۔میری بیوی نے یہ الفاظ نہیں سنے ،اس کے لیے عموماًیہ الفاظ استعمال کرتا رہا کہ میں نے اسے فارغ کردیا ہے بعدازاں اس نے ایک بچے کوجنم دیا حالات نے ایسا پلٹاکھایا کہ ہمیں صلح کرناپڑی ۔کتاب وسنت کی روشنی میں اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ جواب: اپنی بیوی کوطلاق دینے کایہ طریق کار انتہائی غلط اورخلاف شرع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے انسان پراظہار ناراضی فرمایا ہے، البتہ احناف کے نزدیک اس انداز سے دی ہوئی ایک مجلس کی تین طلاق تینوں ہی نافذ ہوجاتی ہیں اورطلاق دہندہ کی بیوی ہمیشہ کے لئے اس پرحرام ہوجاتی ہے جبکہ قرآن وحدیث کے مطابق اس انداز سے دی ہوئی تین طلاق صرف ایک رجعی واقع ہوتی ہے۔ صورت مسئولہ میں طلاق کے وقت بیوی حاملہ تھی اورحاملہ کی عدت وضع حمل ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے‘‘۔ [۶۵/الطلاق:۴] لہٰذا مذکورہ عورت کی عدت وضع حمل کے بعد ختم ہوچکی ہے اب اگربیوی اپنے سابقہ خاوند کے ہاں آناچاہے تونکاح جدیدہوگا کیونکہ عدت ختم ہوتے ہی نکاح بھی ختم ہوچکا ہے۔ تجدیدنکاح کے بغیر رجوع کاموقع ہاتھ سے نکل چکا ہے اگرصلح نئے نکاح سے ہوتی ہے توٹھیک بصورت دیگرابھی سے نیا نکاح کرلیاجائے اور نئے نکاح کے بغیر صلح کرنے کی غلطی پر اظہار ندامت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مساکین کو صدقہ و خیرات بھی دیا جائے۔آخر میں ہم یہ کہنا اپنافرض سمجھتے ہیں کہ خانگی معاملات میں جذبات میں آکرفیصلے نہ کئے جائیں بلکہ نہایت سنجیدگی اور ذہانت سے ایسے نازک