کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 34
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے چنانچہ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے نکاح کر لیا، بعد میں کسی سیاہ فام عورت نے وضاحت کی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، اس لیے تمہارا نکاح درست نہیں ہے، حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے اس مشکل کو حل کرنے کے لیے کسی مناسب وقت کا انتظار نہیں کیا بلکہ اسی وقت سواری لی اور مکہ سے مدینہ کا سفر کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت کے بعد انہوں نے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر لی۔
(صحیح بخاری، العلم:۸۸)
چونکہ فتویٰ حصول علم کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس لیے ہم اس کی تعریف اور اہمیت و افادیت پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں لغوی طور پر فتویٰ اور فتیا، افتا سے ماخوذ ہے، جس کا معنی اظہار و بیان اور رائے دینے کے ہیں مصدری معنی رائے دینے کے علاوہ خود رائے پر بھی فتویٰ اور فتیا کا اطلاق ہوتا ہے، قرآن مجید میں گیارہ مقامات پر اس کے مشتقات استعمال ہوئے ہیں، ان میں اکثر استفتا سوال پوچھنے اور افتا جواب کی وضاحت کرنے کے معنی میں مستعمل ہیں، اسی بنیا دپر سوال کرنے والے کو مستفتی اور جواب دینے والے کو مفتی کہا جاتا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’لوگ آپ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں، فرما دیجئے اللہ تمہیں کلالہ کے متعلق فتویٰ دیتا ہے۔‘‘ (۴/النساء:۱۷۶)
اصطلاحی طور پر فتویٰ سے مراد پیش آمدہ مسائل کے متعلق شریعت کا وہ حکم ہے جو کسی سائل کے جواب میں کوئی عالم دین اور احکام شریعت سے واقف شخص دلیل سے بیان کرے، فتویٰ دینے کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف کی ہے چنانچہ قرآن مجید میں دو مقامات پر یعنی سورۃ النساء آیت نمبر۱۲۷ اور آیت نمبر۱۷۶ میں اللہ تعالیٰ کے فتویٰ دینے کا ذکر آیا ہے۔ فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دینے کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے شروع ہوتا ہے، عہد رسالت میں فتاویٰ کا سلسلہ اکثر و بیشتر زبانی طور پر ہی چلتا تھا، جب کبھی دینی معاملہ میں مشکل مسئلہ پیش آتا تو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے اس کا جواب کبھی تو قرآنی آیات کی صورت میں ملتا اور کبھی وحی الٰہی کی بنیاد پر اپنے اجتہاد سے فتویٰ دیتے تھے، قرآن مجید میں جن فتاویٰ کا ذکر آیا ہے، ان کے سوالات کبھی یسألونک کے صیغے سے شروع ہوتے ہیں اور کبھی یستفتونک کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نازل فرمایا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت امانت داری کے ساتھ لوگوں تک پہنچا دیا، قرآنی فتاویٰ کے علاوہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں صحابہ کرام کے سوالات کا حل پیش فرمایا، یہ فتاویٰ حدیث کی مختلف کتابوں میں موجود ہیں، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی تالیف اعلام الموقعین میں ان فتاویٰ کو ایک جگہ جمع کرنے کی بہترین کوشش فرمائی ہے، نواب صدیق حسن خان نے غالباً اسی پر اعتماد کر کے فارسی زبان میں’’ فتاویٰ امام المتقین‘‘ نامی ایک کتاب لکھی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام نے منصب افتا سنبھالا، سب سے زیادہ فتاویٰ حسب ذیل صحابہ کرام سے مروی ہیں۔
حضرت عائشہ، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابن عمر، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم ، کتب حدیث میں ان حضرات کے فتاویٰ بکثرت ملتے ہیں۔