کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 339
طلاق دے کرفارغ کردے اوردوسری سے عدت گزرنے کے بعد نکاح کرے ۔ (ج) اگردونوں سے خلوت کرچکا ہے تودونوں کواپنے سے الگ کردے ۔جب ان کی عدت گزرجائے توجس سے چاہے نکاح کرے اگر کسی سے نکاح نہیں کرناچاہتا توبعد از عدت دونوں آزادہیں۔ وہ جس سے چاہیں نکاح کرلیں واضح رہے کہ اگر ان دونوں سے اولادبھی ہوچکی ہے تواولاد کی نسبت اسی کی طرف ہوگی کیونکہ نکاح صحیح ہے یا فاسد، دونوں صورتوں میں نسب کاالحاق اسی سے ہوگا۔ [مغنی ابن قدامہ، ص: ۵۳۴،ج ۹] اس تفصیل کے بعدہم جب صورت مسئولہ کاجائزہ لیتے ہیں تواس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے پہلے خالہ سے نکاح کیااوراس سے اولاد بھی پیداہوئی اوریہ نکاح صحیح ہے اوراولاد بھی اسی کی ہے اس کے بعددوسرانکاح پہلی بیوی کی بھانجی سے کیاگیا جو شرعاًناجائز ہے، جیسا کہ احادیث بالا سے واضح ہے چونکہ دوسری بیوی سے اولادہوچکی ہے۔ اس اولاد کی شرعی حیثیت کیا ہے اب دیکھنا ہوگاکہ دوسر ی سے نکاح کرتے وقت اس کی ذہنی کیفیت کیاتھی ؟اگر اس کی حرمت کوجانتے ہوئے دیدہ ودانستہ دوسرانکاح کیا ہے تواس صورت میں اولاد کی نسبت صرف ماں کی طرف ہوگی۔ باپ کی طرف سے انہیں منسوب نہیں کیاجائے گا اوریہ دونوں بدکاری کے مرتکب ہوئے ہیں ۔مرد چونکہ شادی شدہ ہے اسے رجم کی سزادی جائے اورجس سے نکاح کیاگیا ہے اسے سوکوڑے لگائے جائیں کیونکہ وہ پہلے سے شوہر دیدہ نہیں ہے۔ زناکی سزا دینا حکومت کاکام ہے ہم قانون کوہاتھ میں لے کر انہیں سزادینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔یہ ضروری ہے کہ وہ ازخود یابذریعہ قانون ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں ،ہمیں چاہیے کہ ایسے لوگوں سے مکمل بائیکاٹ کریں اورکسی قسم کے تعلق سے کلی طورپر اجتناب کریں ۔اگراس نے دوسرانکاح جہالت اورلاعلمی کی وجہ سے کیاہے توبھی فوراًان کے درمیان علیحدگی کرادی جائے ۔البتہ اس صورت میں اولاد کی نسبت نکاح کرنے والے کی طرف ہوگی کیونکہ نکاح فاسد اوروطی بالشبہ کوبھی ثبوت نسب کے لئے حجت قراردیاگیا ہے۔ شرع اسلام میں بچے کوصحیح النسب قراردینے کی انتہائی کوشش کی گئی ہے تاکہ معاشرہ میں انتشار اوربد اخلاقی نہ پھیلے۔ صورت مسئولہ میں اٹھائے گئے سوالات کاترتیب وارجواب حسب ذیل ہے۔ 1۔ اس آدمی نے جودوسراعقد کیاہے وہ کسی صورت میں جائز نہیں ۔واضح رہے کہ اس نکاح کی حرمت ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ۔ 2۔ دوسرانکاح باطل ہے کیونکہ خالہ اوربھانجی کوجمع کرنے کاسبب عقدثانی ہے، پہلانکاح صحیح ہے کیونکہ اس میں صحت کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں اوراسے حرام قراردینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ 3۔ دوسری سے نکاح کے نتیجہ میں جواولادپیداہوئی ہے اس کی دوصورتیں ہیں اگرلاعلمی میں ایسا ہوا ہے توپیداہونے والی اولاد صحیح النسب ہوگی اگراس کی حرمت کاعلم تھااس کے باوجود نکاح کیا ہے توبدکاری کے نتیجہ میں پیداہونے والی اولادصرف ماں کی طرف سے منسوب ہوگی۔ آدمی سے اس کاکوئی رشتہ نہیں ہے دونوں صورتوں میں ان کے درمیان علیحدگی کراناضروری ہے۔ 4۔ دوسری سے پیداہونے والی اولاد وراثت کی حق دارنہیں ہوگی اورنہ ہی منکوحہ اورناکح کے درمیان وراثت کاسلسلہ چلے گا بلکہ پیداہونے والی اولادکوصرف ماں کی طرف سے وراثت ملے گی ،بشرطیکہ نکاح کے وقت انہیں اس کی حرمت کاعلم تھا۔ 5۔ حقیقی اولاد:اس ناجائز اولاد کے خلاف قانون وراثت کے تحت تمام جائیداد کے وارث ہونے کادعویٰ کرسکتی ہے۔ واضح رہے