کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 335
٭ اس کے چہرے پرنہ ماراجائے ۔ [مسند امام احمد ،ص: ۲۵۱،ج ۲] ٭ ایسی مارنہ ہو جس سے زخم ہوجائیں یانشان پڑجائیں ۔ [مسندامام احمد، ص: ۳۷،ج ۵] ان حدود وقیودکے ساتھ خاوند کو اضطراری حالت میں بیوی کواحتیاط کے ساتھ مارنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ 7۔ ایسے حالات میں بیوی کوبھی تلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنامقام خاوند کے ہاں دیکھتی رہے کہ کیاہے۔ خاوند اس کیلئے جنت ہے وہی اس کے لئے آگ بھی ہے ‘‘۔ [مسند امام احمد، ص: ۳۴۱،ج ۴] نیز ’’جب بھی دنیا میں کوئی عورت اپنے خاوند کواذیت پہنچاتی ہے تواس کی جنتی بیویوں میں سے ایک حورکہتی ہے اللہ تجھے بربادکردے اس کوتکلیف نہ دے یہ توتیرے پاس مہمان ہے۔ عنقریب تجھے چھوڑ کرہمارے ہاں آجائے گا۔‘‘ [ابن ماجہ ،النکاح: ۲۰۱۴] 8۔ اگرمیاں بیوی کے درمیان اختلاف انتہائی سنگین صورت اختیارکرجائے کہ مذکورہ تینوں مراحل کارگرثابت نہ ہوں توفریقین اپنے اپنے خاندان میں سے ثالث منتخب کریں جوپوری صورتحال سمجھ کرنیک نیتی سے اصلاح کی کوشش کریں اوربروقت مداخلت کرکے حالات پرکنٹرول کریں ۔اگران کی نیت بخیرہوگی تواللہ تعالیٰ بیوی خاوند میں موافقت کی ضرورکوئی راہ پیداکرے گا یہ ثالث بیوی خاوند کی طرف سے ایک ایک، دو، دواورتین تین بھی ہوسکتے ہیں۔ جوبات بھی زوجین کوتسلیم ہواختیارکی جاسکتی ہے۔ [۴/النسآء:۳۵] 9۔ اگرمذکورہ جملہ اقدامات سے حسن معاشرت کی کوئی صورت پیداہوتی نظرنہ آئے تواسلام اس بات پرمجبورنہیں کرتا کہ ایک گھرانہ میں ہروقت کشید گی کی فضا قائم رہے اوردونوں میاں بیوی کے لئے وہ گھر جہنم زار بنارہے ۔اس سے بہتر ہے وہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں، خواہ مردطلاق دیدے یاعورت خلع لے لے، پھردونوں کااللہ مالک ہے وہ ان کے لئے کوئی نہ کوئی متبادل صورت پیداکردے گا ۔ [۴/النسآء:۱۳۰] لیکن مندرجہ ذیل امورکوپیش نظررکھنا ہو گا: ٭ ایسے حالات میں اگرچہ طلاق دینا جائز ہے لیکن شریعت نے اسے ’’ابغض الحلال ‘‘ سیتعبیر کیا ہے۔ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’حلال اشیا ء میں اللہ کے ہاں سب سے بری چیز طلاق ہے۔‘‘ [مستدرک حاکم، ص :۱۹۶، ج ۲] طلاق دہندہ کویہ بھی ذہن میں رکھناچاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زندگی بھر اپنی بیوی کوطلاق دینے کے لئے صرف تین اختیارات دیئے ہیں ،وقفہ ،وقفہ سے دومرتبہ طلاق دینے سے رجوع کااختیار بھی اسے دیاگیا ہے اورتیسری طلاق ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے، اس کے بعد عام حالات میں رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی ۔ ٭ طلاق دیتے وقت اسے دیکھناہوگا کہ اس کی بیوی بحالت حیض نہ ہو۔شریعت نے اس حالت میں طلاق دینے سے منع کیا ہے تاکہ طلاق وقتی کراہت اورکسی عارضی ناگواری کی وجہ سے نہ ہو،نیز طلاق دیتے وقت اس بات کابھی خیال رکھے کہ اس طہرمیں بیوی سے مقاربت بھی نہ کی ہو، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا کہ ’’بیوی کوایسے طہر میں طلاق دوجس میں اس سے ہم بستری نہ کی ہو۔‘‘ [صحیح بخاری ،حدیث نمبر:۴۹۰۸]