کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 334
2۔ اس رشتہ کی خشت اول یہ ہے کہ نکاح سے پہلے اپنی بننے والی بیوی کوسرسری نظر سے دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ شکل وصورت کی ناپسندیدگی آیندہ شقاق وفراق کاباعث نہ ہو۔حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کی طر ف پیغام نکاح بھیجا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا تونے اسے دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا، نہیں، آپ نے فرمایا: ’’اسے دیکھ لواس طرح زیادہ توقع ہے کہ تم میں الفت پیداہوجائے ۔‘‘ [ابن ماجہ ،النکاح :۱۸۶۵] 3۔ نکاح کے بعد خاوند کوپابند کیاگیا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے حسن سلوک اوررواداری سے پیش آئے اوراس سے اچھا برتاؤ کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان بیویوں کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسرکرو‘‘۔ [۴/النسآء :۱۹] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اہل ایمان میں سب سے کامل وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جواپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہیں۔‘‘ [مسند امام احمد، ص: ۲۵۰، ج ۲] 4۔ خاوند کواس بات کابھی پابند کیاگیا ہے کہ اپنی بیوی کی معمولی معمولی لغزشوں کوخاطرمیں نہ لائے بلکہ اس کی اچھی خصلتوں کی وجہ سے اس کی کوتاہیوں کونظرانداز کرتا رہے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں توہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں نا گوار ہو مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘ [۴/النسآء:۱۹] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’کوئی مؤمن اپنی مؤمنہ بیوی سے بغض نہ رکھے اگراسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہوگی توضرورکوئی دوسری پسند بھی ہوگی‘‘ ۔ [مسندامام احمد، ص:۳۲۹،ج ۲] 5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کوعورت کی ایک فطری کمزوری سے بھی آگاہ کیا ہے تاکہ یہ جلدبازی میں کوئی ایسا اقدام نہ کربیٹھے جس پر وہ آیندہ نادم وپریشان ہو۔ آپ نے فرمایا کہ ’’عورت پسلی کی طرح ہے اگرتم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تواسے توڑ دوگے اوراگراس سے فائدہ اٹھانا چاہو تواس کجی کی موجودگی میں فائدہ اٹھاتے رہو۔‘‘ [صحیح بخاری ، حدیث نمبر:۵۱۸۴] صحیح مسلم میں ہے کہ ’’ اس کاتوڑدینااسے طلاق دیناہے ‘‘۔ [صحیح مسلم ،الرضاع :۳۶۴۳] 6۔ خاوند اس بات کابھی پابند ہے کہ اگر بیوی میں کوئی ناقابل برداشت چیزدیکھے توطلاق دینے میں جلدی نہ کرے بلکہ امکانی حدتک اصلاح احوال کی کوشش کرے جس کے تین قرآنی مراحل حسب ذیل ہیں ۔ (الف) پہلاقدم یہ ہے کہ بیوی کونرمی سے سمجھایا جائے اوراس سے اختیار کردہ رویے کے انجام سے آگاہ کیاجائے تاکہ وہ محض اپنی بہتری اورمفاد کی خاطرگھر کی فضا کرمکدرنہ کرے ۔ (ب) اگرخاوند کے سمجھانے بجھانے کااثر قبول نہیں کرتی توخاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرے میں سوناشروع کر دے اوراس سے میل جول بندکردے اگربیوی میں کچھ سمجھ بوجھ ہوگی تووہ اس سردجنگ کوبرداشت نہیں کرسکے گی ۔ (ج) اگرخاوند کے اس اقدام پربیوی کوہوش نہیں آتا توپھرآخری حربہ کے طورپر مارنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کی چند ایک شرائط حسب ذیل ہیں : ٭ مارتے وقت اسے برابھلا اور گالی گلوچ نہ دی جائے ۔