کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 332
لے لیاجاتا ہے، لہٰذا اس کی وضاحت کرناانتہائی ضروری ہے ۔ہمارے ہاں بے شمار ایسی رسوم ہیں جوشریعت اسلامیہ کے سراسر منافی ہیں ۔ان میں ایک رسم نکاح وٹہ سٹہ بھی ہے۔ جسے عربی زبان میں ’’نکاح شغار‘‘کہاجاتا ہے۔ دین اسلام میں یہ ناجائز اور حرام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق حکم امتناعی جاری فرمایا ہے ارشاد نبوی ہے کہ ’’اسلام میں نکاح وٹہ سٹہ کاکوئی وجودنہیں ہے۔‘‘ [صحیح مسلم ،النکاح :۳۴۶۹] مذکورہ روایت میں ہی شغارکی بایں الفاظ تعریف کی گئی ہے کہ ’’ایک آدمی دوسرے سے کہے کہ تم اپنی بیٹی کانکاح مجھ سے کر دو میں اپنی بچی کانکاح تجھ سے کردیتا ہوں ۔‘‘یہ تعریف ہمارے ہاں وٹہ سٹہ میں صادق آتی ہے سابقہ شرط کے بغیر تبادلہ نکاح اگرچہ جائزہے، تاہم اختلاف کے وقت منفی اور انتقامی جذبات خودبخود فریقین میں سرایت کرجاتے ہیں۔ چونکہ انجام اورنتیجہ کے لحاظ سے اس طرح کاتباد لہ کوئی مفید چیز نہیں ہے، جیسا کہ تجربات اس کی شہادت دیتے ہیں ۔صورت مسئولہ میں ظاہری طورپر اس میں کوئی قباحت نظرنہیں آتی لیکن اس کانتیجہ شغارجیسا ہوگا۔اصل دارومدار نیت پر ہے اگراس میں کوئی فتورنہیں تویقینا اس طرح کانکاح باعث خیروبرکت ہے کیونکہ دوخاندان آپس میں مل بیٹھنے کاپروگرام رکھتے ہیں۔ اگرنیت صرف جواز کے لئے حیلہ تلاش کرنا ہے تو اس غیر مشروط تبادلہ نکاح سے پرہیز کیاجائے کیونکہ مستقبل میں یہ نکاح کوئی مفید اورثمرآورثابت نہیں ہوسکے گا ۔نکاح کے مسئلہ میں انسان کوانتہائی دوراندیشی سے کام لیناچاہیے ۔کیونکہ زندگی کایہ بندھن صرف ایک مرتبہ ہوتا ہے یہ کوئی بجلی کابلب نہیں ہے کہ جب ضرورت پڑے تولگالیا جائے اورخراب ہونے پراسے اتاردیاجائے ۔اپنی طرف سے نہایت اخلاص کے ساتھ کوشش کرکے پھر معاملات اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیے جائیں ۔ [واللہ اعلم] سوال: میرے شوہر بیرون ملک ہوتے ہیں میں ان کی اجازت سے اپنے والدین کے گھرمیں رہتی ہوں ہم دونوں خوش ہیں مگر جب وہ پچھلے سال پاکستان آئے تومیرے والدین سے کسی ناچاقی کی بنا پر انہوں نے مجھے کہاکہ اگرتم نے دوبارہ مجھے اپنے والدین کے ہاں جانے کے لئے کہاتوسب کچھ ختم ہوجائے گا، پھران کی ناراضی دورہوگئی اورمجھ سے کہا کہ میں نے تم پرجوپابندی لگائی تھی اسے ختم کرتا ہوں مگرمیں سخت پریشان ہوں کہ کہیں خلاف ورزی کی صورت میں ہمارے رشتے پرتوکوئی اثر نہیں پڑے گا ،انہوں نے وضاحت بھی کی ہے کہ میرے نزدیک سب کچھ ختم ہونے کامطلب یہ تھا کہ اگرتم نے والدین کے ہاں جانے کوکہاتو کچھ عرصہ کے لئے تمہارابائیکاٹ کروں گا ،مگرمیں خوف زدہ ہوں کہ سب کچھ ختم ہونا کہیں طلاق تونہیں ہے۔ براہ کرم میری راہنمائی کریں کہ اگر وہ اپنے الفاظ واپس لیتے ہوئے مجھ سے یہ پابندی ختم کرتے ہیں توکیا میں اس پابندی سے آزادہوسکتی ہوں؟ جواب: اس قسم کے سوال کاتفصیلی جواب اہلحدیث مجریہ۲۴ ستمبر شمارہ نمبر۳۶ میں شائع ہوچکا ہے دراصل ہم گھریلو عائلی زندگی کے متعلق بہت افراط و تفریط کاشکارہیں ۔قصور کسی کاہوتا ہے لیکن سزاکسی دوسرے کودیتے ہیں۔ صورت مسئولہ میں اختلاف لڑکی کے والدین سے ہوا لیکن سزا لڑکی کودی جارہی ہے کہ اگرتونے والدین کے ہاں جانے کوکہاتوسب کچھ ختم ہوجائے گا ۔ہمارے معاشرہ میں سب کچھ ختم ہونے سے مراد تواپنے گھرکوبرباد کرنا ہے لیکن ’’صاحب ‘‘نے وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد کچھ عرصہ کے لئے بیوی سے بول چال بندکرناہے دلوں کاحال تواللہ ہی بہتر جانتے ہیں ہم نے توظاہری الفاظ اوراس کی وضاحت کے مطابق