کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 331
کی خدمت میں کوتاہی نہ کرے، وہاں اس بات کابھی خیال رکھنا ہوگا کہ خاوند کے والدین میرے حقیقی والدین کی طرح ہیں، لہٰذا ان کی خدمت کرنے کوبھی اپنے لئے سعادت خیال کرے۔ خاوند کو چاہیے کہ وہ افہام و تفہیم کے ذریعے ایسے کاموں کو سرانجام دے اور محبت و اتفا ق کی فضا کو برقرار رکھتے ہوئے خود بھی والدین کی خدمت کرے اور اپنی بیوی کو بھی یہ سعادت حاصل کرنے کے لئے پابندبنائے ۔ [واللہ اعلم] سوال: میری بیٹی کواس کے خاوند نے عرصہ چھ سال سے چھوڑرکھا ہے۔ ہم نے صلح کے لئے بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے ،بلکہ اس کاکہنا ہے میں نہ تواسے گھر لاناچاہتا ہوں اورنہ ہی قیامت تک اسے آزاد کروں گا، ایسے حالات میں مجھے میری بچی کے متعلق شرعی فتویٰ دیاجائے تاکہ میں اسے کہیں آباد کر سکوں؟ جواب: بیوی کے ساتھ ایساسلوک کرناکہ وہ عملاًبے شوہر ہوکررہ جائے ایسی بیوی کو’’معلقہ ‘‘کہاجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایساکرنے سے منع فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو۔‘‘ [۴/النسآء :۱۹] نیزفرمان الٰہی ہے کہ ’’تم اپنی بیویوں کومحض ستانے کی خاطر مت روکے رکھویہ تمہاری زیادتی ہے جوایساکرے گا وہ خود اپنے آپ پرظلم کرنے والاہے‘‘۔ [۲/البقرہ :۲۳۱] ان آیات کے پیش نظر خاوند بہت ظلم اورزیادتی کاارتکاب کر رہا ہے، چاہیے تویہ تھا کہ وہ اپنی بیوی کے حقوق اد ا کرتا اور اس کے نان ونفقہ اوردیگراخراجات کی ذمہ داری اٹھاتایااسے طلاق دے کرآزاد کردیتا تاکہ وہ باعزت طورپر باقی ماندہ زندگی بسر کرسکے لیکن خاوند کسی صورت راضی نہیں ہے بلکہ اپنی بیوی کومعلقہ بناکرچھوڑناچاہتا ہے جو صریح زیادتی ہے چونکہ یہ صورت حال لڑکی کے لئے ناقابل برداشت ہے اوراللہ تعالیٰ نے کسی پرتنگی کوروانہ رکھااورنہ ہی کسی کواس کی طاقت سے زیادہ تکلیف دیتا ہے، لہٰذا ایسے حالات میں بیوی کوفسخ نکاح کا حق ہے لیکن جدائی کامعاملہ نکاح سے زیادہ نازک ہے۔ جب نکاح سرپرست کے بغیروہ خودبخود نہیں کرسکتی توجدائی اپنے آپ کیونکر درست ہوسکتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ عدالت کی طرف رجوع کرے ،یونین کونسل اور پنچائت کے ذریعہ بھی اس مسئلہ کوحل کیاجاسکتا ہے۔ صرف اس فتویٰ کوبنیادبناکرعلیحدگی اختیارکرنا،پھر آگے نکاح کردیناکسی صورت درست نہیں ہے۔ مفتی کاکام کسی کے لئے اس کے حق کوثابت کرنا ہے حق دلواناعدالت کاکام ہے۔ بلاشبہ فسخ نکاح ایسے حالات میں لڑکی کاحق ہے لیکن اسے حق عدالت یا پنجائت کے ذریعے ہی مل سکتا ہے، لہٰذاضروری ہے کہ علیحدگی اختیار کرنے کے لئے دونوں میں کسی کولایاجائے ۔ [واللہ اعلم] سوال: ایک شخص کی شادی کسی دوسرے شخص کی ہمشیرہ سے ہوئی ۔اب دوسراشخص چاہتا ہے کہ اس کی شادی اپنے بہنوئی کی بہن سے ہوجائے ،اس سے پہلے کسی قسم کی کوئی شرط یا معاہدہ طے نہیں پایا۔کیاایسی صورت میں شادی کرناشریعت میں جائز ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں فتویٰ دیں ۔ جواب: کسی قسم کی سابقہ شرط کے بغیر آپس میں ایک دوسرے کی ہمشیر ہ سے شادی کرناکوئی جرم نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کی ایک بہترین صورت ہے لیکن عام طورپردیکھا جاتا ہے کہ آبائی رسم ورواج کی پابندی کے لئے ظاہری طورپرکسی مسئلہ کے جواز کاسہارا