کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 327
حدیث میں ان رشتوں کے علاوہ ایک اوررشتے کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں اپنے عقد میں نہیں لایا جا سکتا، یعنی خالہ اوربھانجی، نیزپھوپھی اوربھتیجی کوبیک وقت اپنے نکاح میں نہیں رکھا جاسکتا ۔ [صحیح بخاری ،النکاح :۵۱۰۹] صورت مسئولہ میں بہنوئی کی لڑکی سے نکاح کیاجاسکتا ہے بشرطیکہ وہ اس کی بہن کے بطن سے نہ ہو بلکہ اس کے علاوہ کسی دوسری بیوی سے پیدا ہوئی ہو ،یہ محرمات میں شامل نہیں ہے ۔ [واللہ اعلم ] سوال: میری لڑکی نے میری عدم موجودگی میں میری اجازت کے بغیرنکاح کرلیا ہے قرآن و حدیث کی رو سے ایسے نکاح کی کیا حیثیت ہے؟ جواب: قرآن وحدیث کی رو سے ایسانکاح جوسرپرست کی اجازت کے بغیر ہواس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ایسانکاح سرے سے ہی نہیں ہوتا۔اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے کہ ’’سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں ۔‘‘ [ابوداؤد ،النکاح :۲۰۸۵] نیزآپ نے فرمایا: ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا،وہ باطل ہے۔‘‘ آپ نے یہ الفاظ تین مرتبہ کہے۔ [مسند امام احمد، ص: ۴۷، ج ۶] ایک مرتبہ ایسی عورت کے متعلق بہت سنگین الفاظ استعمال فرمائے جواپنانکاح خودکرلیتی ہے آپنے فرمایا: ’’ایسی عورت بدکار اورزانیہ ہے۔‘‘ [ابن ماجہ ،النکاح :۱۸۸۲] ان احادیث کی روشنی میں محدثین کافیصلہ ہے کہ جونکاح باپ کی مرضی کے بغیر ہووہ درست نہیں بلکہ کالعدم ہے ۔ سوال: میری بیٹی امتحان میں باربار فیل ہونے کی وجہ سے ذہنی توازن خراب کربیٹھی ایک سال تک اسی بیماری کاشکار رہی، لیڈی ڈاکٹر کے کہنے پر اس کانکاح کردیاگیا اس کے ذہنی توازن کے بگڑنے کا جب سسرال والوں کوعلم ہوا تووہ اسے میرے پاس چھوڑ گئے،اب لڑکی صحت یاب ہے کیااس کاپہلا نکاح صحیح تھا یااب تجدید نکاح کی ضرورت ہے؟ جواب: سوال سے واضح ہوتا ہے کہ نکاح کے وقت لڑکی کاذہنی توازن صحیح نہیں تھا اس حالت میں شریعت نے انسان کوبے اختیار اورغیرمکلف قرار دیا ہے، لہٰذانکاح کے وقت اس کے ایجاب کی کوئی حیثیت نہیں جونکاح کے لئے بنیادی شرط ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین شخص مرفوع القلم ہیں: دیوانہ تاآنکہ وہ باشعور ہو جائے، سونے والایہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، بچہ تاآنکہ بالغ ہو جائے۔‘‘ [ابوداؤد، الحدود:۴۴۰۳] حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ پاگل عورت پرحدجاری کرنے کاحکم دیاتوحضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’پاگل عورت تومرفوع القلم ہے تاآنکہ وہ باشعور ہو جائے۔‘‘ [صحیح بخاری، الحدود: ۲۲ تعلیقاً] ان احادیث کے پیش نظر لڑکی بے اختیار اورغیرمکلف ہے اب اگراس کے والدیااس کی عدم موجودگی میں کسی دوسرے سرپرست نے لڑکی کی طرف سے ایجاب کی ذمہ داری کواٹھایا ہے تونکاح بالکل صحیح ہے، جیسا کہ نابالغ بچے کے نکاح کے وقت کیا جاتا ہے، لہٰذا پہلانکاح صحیح ہے کسی قسم کے نئے نکاح کی ضرورت نہیں ہے اگرسسرال والوں کواس نکاح میں شک وشبہ ہے تولڑکے