کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 313
جمہور علما اپنے مؤقف کے متعلق بہت مضبوط دلائل رکھتے ہیں جن میں سرفہرست امام بخاری رحمہ اللہ ہیں اورہمارارجحان بھی اسی طرف ہے۔ ہم اختصار کے پیش نظر طلاق بدعت کی پہلی صورت کاجائزہ لیتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’جب حائضہ کوطلاق دی جائے تووہ اس طلاق کی وجہ سے عدت گزارے گی۔‘‘ [صحیح بخاری، الطلاق، باب نمبر: ۲] بخاری کے ایک نسخہ میں ہے کہ دوران حیض دی ہوئی طلاق کوشمار کیاجائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کو ذکر کیاہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کاتذکرہ کیاتوآپ نے فرمایا کہ ’’وہ رجوع کرے‘‘ ایک راوی کہتا ہے کہ آیا کیا گیا ؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کیوں نہیں ۔ [صحیح بخاری ، الطلاق:۵۲۵۲] علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے مختلف طریق ذکر کرنے کے بعد اس بات کوثابت کیاہے کہ دوران حیض دی گئی طلاق کو شمار کیاجائے گا ۔ [ارواء الغلیل، ص: ۱۳۳،ج ۷] اسے طلاق شمار کرنے کے متعلق کچھ آثاروقرائن حسب ذیل ہیں : 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کورجوع کاحکم دیا اوررجوع ہمیشہ طلاق کے بعد ہوتا ہے، اس رجو ع کو لغوی قرار دیناسخن سازی اورسینہ زوری ہے ۔ [بیہقی ،ص: ۹،ج ۴] 2۔ اس حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’تم نے جوطلاق دی ہے وہ ایک ہے۔‘‘[دار قطنی، ص:۹،ج۴] 3۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’وہ طلاق جواس نے دی ہے، شمار کی جائے گی۔‘‘ [بیہقی ، ص:۲۳۶،ج۷] 4۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما خودکہتے ہیں کہ یہ طلاق مجھ پر شمارکرلی گئی۔ [صحیح بخاری :۵۲۵۳] ایک راویت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچھ بھی خیال نہ فرمایا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اس طریقہ کار کودرست خیال نہ فرمایا۔ صور ت مسئولہ میں ہے کہ خاوند نے پہلی طلاق ایسے طہر میںدی تھی جس میں وہ بیوی سے مقاربت کر چکا تھا۔ اس کے متعلق بھی اختلاف ہے ۔لیکن جمہور علما اس بات کے قائل ہیں کہ اس طرح طلاق دینا اگرچہ گناہ اورمعصیت ہے لیکن اس کے باوجود طلاق واقع ہو جائے گی، جیسا کہ مسروقہ چھری سے جانور ذبح کرنااگرچہ گناہ ہے لیکن جانور ذبح ہوجائے گا۔ اسی طرح گواہوں کے بغیر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، حالانکہ ایساکرناگناہ ہے ۔اب ہم صورت مسئولہ کو دیکھتے ہیں کہ سائل نے پہلی مرتبہ طلاق کے بعد رجوع کر لیا، پھرتحریری طورپر دوسری طلاق دی، پھررجوع کرلیا آخرکا ر بیوی کے معاندانہ رویے کی وجہ سے تیسری طلاق بھی دے دی اوراب ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے ۔سائل نے بیوی کو طلاق دینے کانصاب پوراکرلیاہے کیونکہ خاوند کو زندگی میں صرف تین طلاق دینے کااختیار دیا گیا ہے ان میں پہلی دورجوعی اورآخری قطعی ہوتی ہے اس کے بعد عام حالات میں رجوع نہیں ہوسکتا ،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’طلاق (رجعی )دوبار ہے، پھریاتوسیدھی طرح سے اپنے پاس رکھاجائے یابھلے طریقے سے اسے رخصت کردیاجائے ۔‘‘ [۲/البقرہ :۲۲۹] پھراگر مرد(تیسری مرتبہ )طلاق بھی دیدے تواس کے بعد وہ عورت اس کے لئے حلال نہ رہے گی تاآنکہ وہ کسی شخص سے