کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 311
ہوں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کی صراحت کی ہے ۔ (ترمذی، النکاح ، حدیث نمبر:۱۱۰۳) [واللہ اعلم ] سوال: ایک لڑکی کواس کے خاوند نے باہمی ناچاقی کی وجہ سے اپنے گھر سے نکال دیا وہ اپنے والدین کے ہاں رہنے لگی بالآخر ایک سا ل بعد اس نے طلاق دے کر اسے فارغ کردیا۔کیالڑکی کے لئے سال بھر مجبورہوکر والدین کے ہاں بیٹھے رہنا اور پھرطلاق کے بعد عدت گزرنے تک کے اخراجات خاوند کوبرداشت کرناہوں گے یا نہیں؟ جواب: قرآن کریم نے بیوی رکھنے کامقصد اطمینان اورراحت وسکون حاصل کرنابیان کیاہے۔ خاوند اپنی بیوی کے اخراجات برداشت کرے وہ بھی اسی لئے ہے کہ بیوی وظیفۂ زوجیت اوردیگر ہرطرح کے سکون ،آرام کاموقع فراہم کرتی ہے، اس تمہید کے بعدلڑکی کا اپنے والدین کے ہاں بیٹھ رہنے کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں: ٭ بعض اوقات بیوی ازخودناراض ہوکروالدین کے ہاں چلی جاتی ہے اورکسی دوسرے کے بہلانے پھسلانے پر اپنے خاوند کے گھرواپس نہیں آتی جبکہ خاوند کی انتہائی کوشش اپناگھر آباد کرنے کی ہوتی ہے اس صورت میں والدین کے ہاں بلاوجہ بیٹھ رہنے والی بیوی اپنے خاوند کی طرف سے نان ونفقہ کی حقدارنہیں ہے کیونکہ اس نے نہ صرف خاوندکے حقوق کوپامال کیاہے بلکہ اس کے لئے وہ مزید پریشانی اورذہنی کوفت کاباعث بنی ہے۔ ٭ دوسری صورت یہ ہے کہ خاوند بلاوجہ اسے ا پنے گھرسے نکال دیتا ہے اورلڑکی مجبورہوکر اپنے والدین کاسہارالیتی ہے، ایسے حالات میں بیوی جتنا عرصہ والدین کے گھر بیٹھی رہے گی خاوندکواس کاخرچہ برداشت کرناہوگا کیونکہ اس صورت میں حقوق کی عدم ادائیگی کاباعث وہ خودہے۔ صورت مسئولہ میں اگرمذکورہ لڑکی کوواقعی گھر سے نکالا گیا ہے اوروہ مجبورہوکر اپنے والدین کے ہاں بیٹھی ہے تواس کے جملہ اخراجات بذمہ خاوند ہیں ۔اسی طرح رجعی طلاق کے بعد بیوی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی عدت کے ایام اپنے خاوند کے گھرگزارے اورخاوند اس کے لئے رہائش اوردیگر اخرجات فراہم کرے ۔لیکن اگرحالات ایسے پیدا کر دیے جائیں کہ بیوی اپنے خاوندکے پاس نہ رہ سکتی ہوبلکہ اپنے والدین کے ہاں ایام عدت گزارنے پرمجبور ہوتو ا س صورت میں بھی عدت گزارنے تک کا خرچہ بذمہ خاوند ہوگا۔خاوندکوچاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں کسی قسم کی کوتاہی کوروانہ رکھے اورعد ل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنی بیوی پراٹھنے والے اخراجات اس کے حوالہ کرے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ مل بیٹھنے کاکوئی راستہ کھول دے ۔ [واللہ اعلم ] سوال: میں نے اپنی بیوی کوبحالت غصہ ایسے طہر میں طلاق دی جس میں وظیفۂ زوجیت اد اکرچکا تھا، پھرچنددنوں بعد رجوع کرکے ہم نے اپنی ازدواجی زندگی کوبحال کر لیا اس عرصہ بعد میں نے اسے تحریر ی طورپر دوسری طلاق دی، پھررجوع کر لیا۔ آخر کار اس کے معاندانہ رویے سے تنگ آکر میں نے تیسری طلاق بھی لکھ کرروانہ کردی ۔اب ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ایسے حالات میں رجوع کرنے کی کوئی صورت ممکن ہے؟ کچھ علما نے مجھے کہاہے کہ چونکہ پہلی طلاق طریقہ اسلام سے ہٹ کر دی گئی تھی لہٰذا وہ کالعدم ہے اب گویا دوطلاقیں ہوئیں ،لہٰذا رجوع کیا جا سکتا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ میری صحیح راہنمائی فرمائیں۔ جواب: طلا ق کامعاملہ انتہائی نزاکت کاحامل ہے، اس لئے یہ اقدام کرنے سے پہلے خوب سوچ بچار کرلینا چاہیے۔ رسول