کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 304
ہوتی ، لیکن لڑکی اور لڑکا دونوں جذباتی تھے اس جذباتی رومیں شادی ہوگئی ۔اس کے بعد لڑکی کے والدین نے حالات سے مجبور ہو کر صلح کرلی۔حدیث میں بیان ہے کہ سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ ولی کی اجازت کے بغیرنکاح درست نہیں۔‘‘ [مسند امام احمد، ص: ۳۹۴،ج ۴] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تواس کانکاح باطل ہے۔‘‘ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے۔ [ابوداؤد،النکاح : ۲۰۸۳] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کوئی عورت کسی دوسری عورت کانکاح نہ کرے، یعنی نکاح میں اس کی سرپرستی نہ کرے اورنہ ہی کوئی عورت خود اپنانکاح کرے، بلاشبہ وہ بدکار عورت ہے جس نے اپنانکاح خود کرلیا۔‘‘ [ابن ماجہ ، النکاح :۱۸۸۲] ان احادیث کا تقاضا ہے کہ صورت مسئولہ میں جونکاح ہوا ہے وہ سرپرست کی اجازت کے بغیر ہوا ہے جبکہ اس کی اجازت انعقادنکاح کے لئے شرط ہے، لہٰذاا س ’’عدالتی نکاح‘‘ کو نکاح تسلیم نہیں کیاجاسکتا ،ہمارے نزدیک دوصورتوں میں عدالتی نکاح صحیح ہوتا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ جس عورت کاکوئی بھی سرپرست نہ ہوتوعدالت کی سرپرستی میں اس کانکاح کیاجاسکتا ہے اگرعدالت تک رسائی مشکل ہو تو گاؤں یامحلے کے سنجیدہ اورپختہ کارلوگوں پرمشتمل یاپنچائت کی سرپرستی میں بھی نکاح کیاجاسکتاہے ۔ ٭ کسی عورت کاولی موجودہے لیکن وہ اپنی ولایت سے ناجائزفائدہ اٹھانا چاہتا ہے یا اپنے مفادات کی وجہ سے لڑکی کا کسی غلط جگہ پر نکاح کرنے پرتلاہواہے توایسے حالات میں بھی عدالت یاپنچائت کی سرپرستی میں نکاح ہوسکتا ہے ۔ چونکہ اس نے نکاح سے پہلے اپنے والد سے رابطہ کیااور اس کے ان الفاظ سے کہ ’’اجازت ہی اجازت ہے ‘‘سے فائدہ اٹھاکر عدالتی نکاح کیا ہے۔ لہٰذا اس شبہ نکاح کافائدہ ’’ملزم‘‘ کوملناچاہیے۔ اس کافائدہ صرف اتنا ہی ہوناچاہیے کہ اس کی اولاد کوصحیح النسب قرار دیا جائے لیکن حقیقت کے اعتبار سے نکاح صحیح نہیں ہے۔ اس لئے آیندہ اسے گناہ کی زندگی سے بچانا چاہیے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ ان کے درمیان فوراًعلیحدگی کردی جائے ۔ایک ماہ تک دونوں ’’میاں بیوی‘‘ ایک دوسرے سے الگ رہیں۔ انہیں اس فعل شنیع پرملامت بھی کی جائے۔ انہیں اللہ تعالیٰ سے معافی اوراستغفار کی تلقین کرنی چاہیے، پھرایک ماہ بعدازسر نونکاح کیا جائے اور نکاح کی شرائط کوملحوظ رکھاجائے ۔ہمارے نزدیک احتیاط کاتقاضا یہی ہے۔ امید ہے کہ ایسا کرنے سے دونوں قیامت کے دن مواخذہ سے محفوظ رہیں گے۔ [واﷲ اعلم] سوال: ایک آدمی نے شراب کے نشہ میں مدہوش اپنی بیوی کوطلاق دے دی ،جب اسے ہوش آیا تو اسے بتایا گیا کہ تو نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے تواس نے سراسر انکار کردیا کہ مجھے اس کاعلم نہیں ۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ نشہ اور بیماری کی مدہوشی میں طلاق ہوجاتی ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں ۔ جواب: طلاق کے لئے ضروری ہے کہ خاوند طلاق دیتے وقت خودمختار ،مکلف اورکامل ہوش وحواس میں ہو ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا