کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 303
بسر کئے۔ [ابوداؤد ،طلاق:۲۳۰۰] اس حدیث کی روشنی میں بیوہ کواپنے خاوند کے گھر میں عدت گزارنی چاہیے لیکن بعض اوقات عدت گزارنے والی عورت میں یااس گھر کے متعلق کوئی اضطراری حالت پیداہوجاتی ہے: مثلاً: جان ومال کاخوف ،عزت وآبرو کا ڈر، مکان کاانہدام ،گردوپیش میں فاسق ،فاجرلوگوں کارہنا جہاں اس کی جان، عزت، آبرو کوخطرہ لاحق ہوتوایسے حالات میں وہاں سے منتقل ہوناجائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دوسری رہائش میں منتقل ہوکروہ ان احکام کی پابندی کرے جن کاذکرپہلے ہوچکاہے ۔ صورت مسئولہ میں اگرواقعی ایسے ہی حالات ہیں، جیسا کہ ذکرکیاگیا ہے توبیوہ کواپنے والدین کے ہاں ایام عدت گزارنے کی اجازت ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ کسی کوطاقت سے بڑھ کر زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے‘‘۔ [۲/بقرہ :۲۸۶] ایسے حالات میں بیوہ کااپنے خاوند کے گھر قیام رکھنااسے مشقت میں ڈالنا ہے، تاہم بہتر ہے کہ اس کی والدہ یابھائی یاکوئی اور محرم بیوہ کے ساتھ خاوند کے گھر میں رہائش رکھ لے تاکہ نصوص کی خلاف ورزی نہ ہو اگرایساممکن نہ ہو تو اسے وہاں سے اپنے میکے منتقل ہونے پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔ محقق ابن قدامہ نے اس موضوع پرتفصیل سے لکھا ہے ۔ [مغنی ابن قدامہ ۱۱/۲۹۲] عر ب شیوخ نے بھی ایسے حالات میں بیوہ کواپنے خاوند کے گھر سے باہر عدت کے ایام پورے کرنے کی اجازت دی ہے۔ (فتاویٰ نکاح و طلاق،۴۷۴) [واللہ اعلم] سوال: ایک لڑکی اپنے گھر سے بھاگ کر اپنے آشنا کے پاس آگئی اوراس سے شادی کاارادہ ظاہر کیا ،آشنا نے لڑکی کے والدین سے فون پررابطہ کرکے اس سے شادی کی اجازت طلب کی توانہوں نے یہ کہہ کرفون بند کردیا کہ وہ گھر سے بھاگ کر گئی ہے اورآپ سے شادی کرناچاہتی ہے، اس لئے ہماری طرف سے اجازت ہی ہے لیکن ہماری طرف سے کوئی بھی شادی میں شریک نہیں ہوگا ،آشنا نے اپنے دوستوں کوگواہ بناکر عدالتی نکاح کرلیا ،چندسال بعد لڑکی کے والدین سے صلح ہوگئی ۔ اس نکاح کو تقریباً 15 سال ہوگئے ہیں چار بچے بھی ہیں۔ اس نکاح کی شرعی حیثیت سے ہمیں آگاہ کریں کہ صلح کے بعد انہیں دوبارہ نکاح کرناچاہیے تھا یا پہلا نکاح ہی کافی تھا؟ جواب: ہمارے معاشرے کایہ المیہ ہے کہ ہم ایک کام کواپنے ہاتھوں خراب کردیتے ہیں ،پھر اس خرابی کو موجودرکھتے ہوئے اس کاکوئی شرعی حل تلاش کرتے ہیں۔ صورت مسئولہ میں ایسا ہی معاملہ درپیش ہے کہ لڑکی خود گھر سے بھاگ کر آئی ہے اور اپنے آشناسے شادی کرنے کااظہار کرتی ہے ۔آشنا کوبھی علم ہے کہ والد کی اجازت کے بغیرنکاح نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے فوراًلڑکی کے والد سے نکاح کی اجازت لینے کے لئے رابطہ کیا۔لڑکی والوں نے جوجواب دیا ہے اس سے ان کی اجازت کوکشید نہیں کیا جاسکتا ،بلکہ انہوں نے اپنی غیرت کا اظہارکیا ہے کہ جب ہماری لڑکی گھرسے بھاگ گئی ہے توہماری عزت تو اس وقت پامال ہوچکی ہے، اب ہم اجازت دیں یانہ دیں اس سے معاملہ کی سنگینی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس لئے ’’ہماری طرف سے اجازت ہی اجازت ہے۔‘‘ کے الفاظ کوحقیقی اجازت پرمحمول نہیں کیاجاسکتا ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے برملاکہا کہ ہماری طرف سے اس ’’شادی‘‘ میں کوئی شرکت نہیں کرے گا۔ حق تویہ تھا کہ لڑکی کوسمجھا بجھا کرواپس بھیج دیاجاتا ،پھرحالات سازگار ہونے پر نکاح کی بات چیت