کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 294
کے حق میں اس وصیت کونافذ قرار دے، ہاں، اگردادا نے اپنی زندگی میں یتیم پوتے ،پوتیوں کوبذریعہ ہبہ ترکہ کاکچھ حصہ پہلے ہی دے دیا ہو تواس کی وصیت کالعدم قرار دینے کے بجائے اس کو نافذ کردیاجائے ۔ [واللہ اعلم بالصواب] سوال: لالہ موسیٰ سے بواسطہ ذیشان خریداری نمبر:۵۶۹۵قاضی محمد خاں کا ایک سوال اہل حدیث مجریہ ۵ستمبر ۲۰۰۳ شمارہ نمبر ۳۶ میں شائع ہواتھا کہ میری بیوی فوت ہوگئی ہے، اس کے نہ والدین زندہ ہیں نہ ہی اس کی کوئی اولاد ہے۔ صرف اس کاخاوند اورتین حقیقی بہنیں زندہ ہیں، اس کی جائیداد کیسے تقسیم ہوگی ،ہم نے اس کے جواب میں لکھا تھاکہ صورت مسئولہ کلالہ کی ایک صورت ہے چونکہ اولاد نہیں، اس لئے خاوند کواس کی منقولہ اورغیرمنقولہ جائیداد سے نصف ملے گا اورتین حقیقی بہنوں کوکل جائیداد سے 2/3دیاجائے گا۔تقسیم میں سہولت کے پیش نظر ہم نے لکھا تھا کہ کل جائیداد کے چھ حصے کرلئے جائیں ،نصف، یعنی تین حصے خاوند کو اور دوتہائی یعنی چار حصے تینوں بہنوں کودئیے جائیں چونکہ چھ حصوں سے ورثا کوملنے والا سہام زیادہ ہیں، اس لئے یہاں عول ہوگا اس لئے کل جائیداد کے چھ حصے کے بجائے سات حصے کرلئے جائیں۔ ان سات حصوں میں سے تین خاوند کوباقی چار بہنوں کومل جائیں گے ۔آخر میں یہ مشورہ بھی دیاتھا کہ جائیداد کی تفصیلی تقسیم محکمہ مال، یعنی پٹواری کے ذمے ہے۔ وراثت کے فتویٰ میں صرف حصوں کاتعیین کیاجاتا ہے تقسیم کاعمل مفتی کے ذمے نہیں ہے۔ ادارہ ’’اہل حدیث ‘‘کی وساطت سے ہمیں ایک خط موصول ہوا جس میں قاضی محمدخان لکھتے ہیں کہ ’’میرے حق وراثت کے سوال پرجومشورہ دیا گیا ۔وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی مخالفت کرتا ہے، نیزیہ مسئلہ بڑی اہمیت کاحامل ہے اس میں بڑی محنت درکار ہے۔ اسے عول یاپٹواریوں کے رحم و کرم پرنہیں چھوڑا جاسکتا ہے ۔الیٰ آخرہ جواب: ہم نے سوال کاجواب قرآن پاک کی آیات کے حوالہ سے دیاتھا ہمارے نزدیک ہرمسئلہ ہی بڑی اہمیت کاحامل ہوتا ہے، اس لئے سوالات کے جواب میں محنت بھی کی جاتی ہے اوراحساس ذمہ داری بھی ہوتا ہے کیونکہ ہمارے نزدیک مفتی کامنصف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں رہتے ہوئے سوالات کے جواب دیتا ہے۔ اس مختصر وضاحت کے بعد کچھ ملاحظات پیش خدمت ہیں : 1۔ پرچہ ’’اہل حدیث‘‘ کوئی کاروباری میگزین نہیں ہے کہ اس سے دنیا وی منفعت ہوتی ہو،بلکہ دنیاوی لحاظ سے دینی جرائد خسارے میں رہتے ہیں، البتہ دینی لحاظ سے یہ مفاد ضرورہوتا ہے کہ ان سے دین اسلام کی سربلندی اوراسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت مقصودہوتی ہے ۔شاید سوالات کے جواب کے لئے خریداری نمبر کی پابندی بھی اس لئے ہے کہ اس کے خریدار زیادہ ہوں لیکن یہ بات اخلاقی لحاظ سے صحیح نہیں ہے کہ دوسروں کے خریداری نمبر کاسہارا لے کر سوالات پوچھے جائیں ۔ویسے بھی سوال وجواب کے کا لم میں خریدار یاغیرخریدار کوخاطر میں نہ لاتے ہوئے جواب دیے جاتے ہیں۔ 2۔ عول کاسہارامجبوراًلیاجاتا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے عول کاحکم دیا تھا ۔ان کے زمانے میں ایک ایسی صورت واقع ہوئی کہ اصحاب الفروض کے سہام ترکہ کی اکائی سے زیادہ تھے، جیسا کہ موجودہ صورت مسئولہ میں ہے ۔آپ نے کبارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ فرمایا۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے عول کامشورہ دیا، جس سے صحابہ نے اتفاق فرمایا، ان میں حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم جیسے مجتہدین صحابہ کرام شامل تھے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت ابن