کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 293
معنی دوطرح مشتمل ہیں 1۔ ایک حقیقی جوبلاواسطہ جناہوا ہو، یعنی بیٹااور بیٹی۔ 2۔ دوسرے مجازی جوکسی واسطہ سے جناہوا ہو، یعنی پوتا اورپوتی ۔ بیٹیوں کی اولاد نواسی اورنواسے اس کے مفہوم میں شامل نہیں ہیں کیونکہ نسب باپ سے چلتا ہے، اس بنا پر نواسہ اورنواسی لفظ ولد کی تعریف میں شامل نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک مسلمہ اصول ہے کہ جب تک حقیقی معنی کاوجود ہوگامجازی معنی مراد لیناجائز نہیں ہے، یعنی لفظ ولد کے حقیقی معنی بیٹایابیٹی کی موجودگی میں پوتا اورپوتی وغیرہ مراد نہیں لیے جاسکیں گے، لہٰذا آیت کریمہ کامطلب یہ ہوا کہ بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے پوتی کاکوئی حق نہیں ہے وہ پوتا پوتی زندہ بیٹے سے ہوں یامرحوم بیٹے سے ،امام جصاص رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’امت کے اہل علم کااس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حق تعالیٰ کے مذکورہ ارشاد میں حقیقی اولاد مراد ہے اورنہ اس میں اختلاف ہے کہ پوتاحقیقی بیٹے کے ساتھ اس میں داخل نہیں ہے اور نہ اس میں اختلاف ہے کہ اگرحقیقی بیٹا موجود نہ ہوتو مراد بیٹوں کی اولاد سے بیٹیوں کی نہیں، لہٰذا یہ لفظ صلبی اولاد کے لئے ہے اورجب صلبی نہ ہوتوبیٹے کی اولادکوشامل ہے ۔‘‘ [احکام القرآن ،ص: ۶۹،ج ۲] پھراحادیث میں ہے کہ وراثت کے مقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر جوبچے وہ میت کے سب سے قریبی مذکر رشتہ دار کے لئے ہے ۔ [صحیح بخاری ، الفرائض: ۶۷۳۲] اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے مقرر حصے لینے والوں کے بعد وہ وارث ہوگا جومیت سے قریب تر ہو گا، چنانچہ بیٹاپوتے سے قریب تر ہے، اس لئے پوتے کے مقابلے میں بیٹاوارث ہوگا ۔ شریعت نے وراثت کے سلسلہ میں اقرب فالاقرب کے قانون کوپسند فرمایاہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ہرایک کے لئے ہم نے موالی بنائے ہیں، اس ترکہ کے جسے والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں ۔‘‘ [۴/ النسآء : ۳۳] اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دوروالا رشتہ دار محروم ہوگا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا ۔ البتہ اسلام نے اس مسئلہ کاحل بایں طور پر فرمایاہے کہ مرنے والے کوچاہیے کہ وہ اپنے یتیم پوتے ،پوتیوں، نواسے، نواسیوں ودیگر غیروارث حاجت مند رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے اپنے ترکہ سے 1/3کی وصیت کر جائے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تم پر یہ فرض کردیا گیا ہے کہ اگر کوئی اپنے پیچھے مال چھوڑے جارہاہے توموت کے وقت اپنے والدین اورقریبی رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے، یہ پرہیزگاروں پرفرض ہے ۔ ‘‘ [۲/البقرہ :۱۸۰] چونکہ حدیث کے مطابق وارث رشتہ دارکے لئے وصیت جائز نہیں ہے، اس لئے والدین کے لئے وصیت جائز نہیں ہے، البتہ دیگر رشتہ دار جو محتاج اورلاچار ہیں ان کے لئے وصیت کرناضروری ہے اگرکوئی یتیم پوتے ،پوتیوں کے موجود ہوتے ہوئے دیگرغیروارث افراد یا کسی خیراتی ادارہ کے لئے وصیت کرتا ہے توحاکم وقت کواختیار ہوناچاہیے کہ وہ حاجت مند یتیم پوتے، پوتیوں