کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 292
نے یتیموں اوربیواؤں کے حق کوکیوں ساقط کردیا ہے جبکہ دوسرے مذاہب یتیم پوتوں کوحق دیتے ہیں اورانہیں کسی صورت میں محروم نہیں کرتے۔ مہربانی فرماکر مفصل جواب دیں؟
جواب: بندہ مسلم کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام بجالاتا ہے اورسمع واطاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خودکواسلام کے حوالے کردیتا ہے۔ دین اسلام دیگر ادیان کے مقابلہ میں، اس لئے بلند وبرتر ہے کہ اس میں اعتدال کاحسن ہے۔ درج ذیل سوال میں سطحی جذبات کے پیش نظر اسلام کی حقانیت کوچیلنج کیاگیا ہے، حالانکہ جس قدر یتیموں کے حقوق کاخیال دین اسلام کی تعلیمات میں ہے دیگر ادیان میں اس کاعشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اس تمہیدی گزارش کے بعد واضح ہوکہ اسلام نے میراث کے سلسلہ میں اقربا کے فقرواحتیاج اوران کی بے چارگی کوبنیاد نہیں بنایا؟ جیسا کہ یتیم پوتے کے متعلق سوال میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ مستقبل میں مالی معاملات کے متعلق ذمہ داری کوبنیاد بنایا گیا ہے۔ اگراس سلسلہ میں کسی کا محتاج اور بے بس ہونابنیاد ہوتاتوارشاد باری تعالیٰ بایں الفاظ نہ ہوتا کہ ’’مذکر کے لئے دو مونث کے برابرحصہ ہے۔‘‘ بلکہ اس طرح ہوتا کہ مونث کے لئے دومذکر کے برابرحصہ ہے کیونکہ لڑکے کے مقابلہ میں لڑکی مال ودولت کی زیادہ حاجت مند ہے اوراس بے چارگی کے سبب میت کے مال سے اسے زیادہ حقدار قراردیا جاناچاہیے تھا۔اسی طرح شوہر کوزوجہ کی اولاد نہ ہونے پرنصف جائیداد کامستحق قرار دیاگیا ہے جبکہ زوجہ کوشوہر کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ایک چوتھائی کاحقدار ٹھہرایاگیا ہے، حالانکہ حاجت مندی ،بے چارگی ، عدم کسب معاش اورنسوانی وصف کاتقاضاتھا کہ شوہر کے لئے ایک چوتھائی اوربیوی کے لئے نصف مقرر ہوتا ۔ان حقائق کا واضح مطلب ہے کہ وراثت میں حاجت مندہونایاعدم اکتساب یابے چارگی قطعاًملحوظ نہیں ہے ۔موجودہ دور میں وراثت کے متعلق جس مسئلہ کوزیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ میت کی اپنی حقیقی اولاد موجودہونے کے باوجود یتیم پوتے ،پوتی ،نواسے اورنواسی کی میراث کا مسئلہ ہے، یعنی دادا یانانا کے انتقال پر اس کے اپنے بیٹے کے موجود ہوتے ہوئے اس کے مرحوم بیٹے یابیٹی کی اولاد دادا یانانا کے ترکہ سے میراث پانے کی مستحق ہے یا نہیں، اس مسئلہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر بیسویں صدی تک کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ دادا یا نانا کے انتقال پراگراس کاکوئی بیٹا موجود ہوتواس کے دوسرے مرحوم بیٹے یابیٹی کی اولاد کوکوئی حصہ نہیں ملے گا، اس مسئلہ میں نہ صرف اہل سنت کے مشہور فقہی مذاہب ،حنفیہ ،مالکیہ ،شافعیہ اور حنبلیہ، نیزشیعہ، امامیہ وزیدیہ اورظاہر یہ سب متفق ہیں، بلکہ غیر معروف ائمۂ فقہا کابھی کوئی قول اس کے خلاف منقول نہیں، البتہ حکومت پاکستان نے ۱۹۶۱ء میں مارشل لا کے ذریعے ایک آرڈیننس جاری کیاجس کے تحت یہ قانون نافذ کردیا گیا کہ اگرکوئی شخص مرجائے اوراپنے پیچھے ایسے لڑکے یالڑکی کی اولاد کو چھوڑ جائے جواس کی زندگی میں فوت ہوچکا ہوتو مرحوم یا مرحومہ کی اولاد دیگر بیٹوں کی موجوگی میں اس حصے کوپانے کی مستحق ہوگی جوان کے باپ یاماں کوملتا اگروہ اس شخص کی وفات کے وقت موجود ہوتے۔ پاکستان میں اس قانون کے خلاف شریعت ہونے کے متعلق عظیم اکثریت نے دوٹوک فیصلہ کردیا تھا کہ یہ قانون امت مسلمہ کے اجتماعی نقطۂ نظر کے خلاف ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں ہے:
’’اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مذکر کے لئے اس کا حصہ دومونث کے حصہ کے برابر ہے۔‘‘ [۴/النسآء:۱۱]
اس آیت کریمہ میں اولاد، ولد کی جمع ہے جس کے معنی جننے کے ہیں ۔جوجنے ہوئے معنی میں استعمال ہوا ہے لیکن ولد کے