کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 291
بلکہ ایک روایت میں ہے کہ ہم اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کرتے ۔ [ابوداؤد، العتق :۳۹۵۸] ان احادیث کے پیش نظر یہ فیصلہ کیاجاتا ہے کہ باپ نے اگرزندگی میں حقوق العباد کے سلسلہ میں کوئی غلط اقدام کیا تھا تواس کے مرنے کے بعد کالعدم کیاجاسکتا ہے اوراس میں مناسب ترمیم کر کے کتاب وسنت کے مطابق کرناضروری ہے۔ مرحوم کے ساتھ ہمدردی کابھی یہی تقاضا ہے کہ اس کے غلط اقدام کوبرقرار رکھ کراس کے بوجھ کوزیادہ وزنی نہ بنائیں بلکہ اس کی اصلاح کرکے اس کی عاقبت کوسنوارنے کی فکر کی جائے ۔ ٭ اولاد کی دوحیثیتیں ہیں ایک یہ ہے کہ وہ باپ کے ساتھ ہی کاروبار میں شریک ہوتی اور اس کے ساتھ ہی ایام زندگی گزارتی ہے اس صورت میں باپ کے پاس رہنے والی اولاد کی کمائی باپ کی ہی شمار ہوتی ہے کیونکہ حدیث میں ہے: ’’تواورتیرامال سب تیرے باپ کے لئے ہے۔‘‘ [مسند امام احمد، ص۲۰۴ ج۲] ایسے حالات میں کسی بیٹے کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ چالوکاروبار سے کچھ رقم پس انداز کرکے اپنی الگ جائیدا د بنالے ، اگرایسا کیاگیا ہے توایسی جائیدا د کوباپ کی جائیداد سمجھتے ہوئے اس کے ترکے میں شمار کرنا ہو گا۔ ہاں، اگراولادکاحق ملکیت تسلیم کرلیاجائے تواولاد میں کسی کوالگ جائیداد بنا نے میں کوئی حرج نہیں ہے یاکوئی ملازمت پیشہ بیٹا اپنے باپ سے کہہ دے کہ میری اس رقم سے آپ نے میرے لئے کوئی پلاٹ یامکان خریدنا ہے، ایسے حالات میں اس کی خریدی ہوئی جائیداد کوبیٹے کی جائیداد سمجھاجائے گا اور اسے باپ کے ترکے میں شامل نہیں کیاجائے گا۔ اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگرکسی بیٹے نے قرض وغیرہ پکڑکرپراپرٹی خریدی یامکان بنایا ہے تومکان یاپلاٹ کوباپ کے ترکے میں شامل کرتے وقت اس قرضہ کو مشترکہ جائیداد سے منہاکرناہوگا ۔اولاد کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ کوئی بیٹاشادی شدہ ہے باپ نے باضابطہ طورپر اسے الگ کردیا ہے اب وہ خودمحنت کرتا ہے اوراپنے گھرکانظام بھی خود چلاتا ہے باپ کے ذمے اس کاکوئی بوجھ نہیں ہے ایسی صورت میں اگروہ بیٹا کوئی مکان یاپلاٹ یاجائیداد بناتاہے تواسے باپ کے ترکہ میں شمار نہیں کیاجائے گا کیونکہ اس کاالگ حق ملکیت تسلیم کرلیاگیا ہے، ایسے حالات میں باپ اس کے لین دین کابھی ذمہ دار نہیں ہے۔ آخر میں ہم اس بات کی وضاحت کرناضروری سمجھتے ہیں کہ حقوق العباد کامعاملہ بہت ہی نازک ہے۔ قیامت کے دن اس کی معافی نہیں ہوگی ،اپنی نیکیاں دے کر اور دوسروں کی برائیاں اپنے کھاتے میں ڈال کراس کی تلافی کی جائے گی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم قیامت کے دن انصاف پرمبنی ترازو قائم کریں گے اس بنا پر کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہ ہوگی اور اگرکسی کا، رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم ہواتو وہ بھی سامنے لایا جائے گا اور ہم حساب لینے کے لئے کافی ہیں ۔‘‘ [۲۱/الانبیاء :۴۷] یہ دنیا کامال ومتاع دنیامیں رہ جائے گا، اس کی خاطر اپنی آخرت کوبربادنہ کیاجائے ۔ [واللہ اعلم بالصواب] سوال: ہفت روزہ اہل حدیث شمارہ نمبر: 24کے احکام وسائل میں آپ نے لکھا ہے کہ پوتا اپنے دادا کی جائیداد سے محروم رہتا ہے۔ آپ کا جواب شکوک شبہات کاباعث ہے۔ یعنی آدمی کابیٹا فوت ہو جائے۔ فوت ہونے والے کی چھوٹی اولاد بھی ہو۔ ایسے حالات میں بیوہ اوریتیم اولاد کووراثت سے محروم کرنا کہاں کاانصاف ہے؟ اسلام کی حقانیت سے انکار ممکن نہیں ،لیکن یہاں اسلام