کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 290
تو آپ نے فرمایا: ’’کیاتو نے دوسرے بیٹوں کوبھی اس قدر عطیات دئیے ہیں۔‘‘ اس نے عرض کیا نہیں، آپ نے فرمایا: ’’اس عطیہ سے رجوع کرلواللہ تعالیٰ سے ڈرواوراولاد میں عد ل و انصاف کیاکرو۔‘‘ [صحیح بخاری، الھبہ :۲۵۸۶] ایک روایت میں ہے کہ ’’اگر میں عطیہ کے سلسلہ میں برتری دینا چاہتا توعورتوں کوبرتری دیتا۔‘‘ [بیہقی ،ص: ۱۷۷،ج ۶] اس لئے حدیث کے پیش نظر باپ کایہ اقدام غلط ہے کہ وہ کسی ایک بیٹے کے نام جائیداد لگوادے اوردوسروں کواس سے محروم کردے ۔ ٭ انسان کواللہ تعالیٰ نے یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ قانون وراثت کوپامال کرتے ہوئے کسی نافرمان بیٹے کواپنی جائیدا د سے محروم کردے ،اخبارات میں ’’عاق نامہ ‘‘کے اشتہارات اللہ تعالیٰ کے ضابطہ وراثت کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’مردوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جووالدین اوررشتے دار وں نے چھوڑا ہواور عورتوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جووالدین اوررشتے داروں نے چھوڑا ہو، خواہ وہ مال تھوڑاہویازیادہ لیکن اس میں یہ حصہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے ۔ ‘‘ [۴/ النسآء:۷۱] اس آیت کے پیش نظر کسی وارث کوبلاوجہ شرعی وراثت سے محروم نہیں کیاجاسکتا ،احادیث میں بھی اس کی وضاحت ملتی ہے۔ فرمان نبوی ہے کہ ’’جو کسی کی وراثت ختم کرتا ہے جواللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی وراثت ختم کردیں گے۔‘‘ [شعب الایمان بیہقی، ص: ۱۱۵، ج ۱۴] اگر بیٹا نافرمان ہے تو وہ اس نافرمانی کی سزا قیامت کے دن اللہ کے ہاں ضرور پائے گا لیکن والد کویہ حق نہیں ہے کہ وہ اسے جائیداد سے محروم کردے ،ایسا کرنے سے انسان کی عاقبت کے خراب ہونے کااندیشہ ہے۔ ٭ اگرباپ نے اپنی زندگی میں کوئی غلط فیصلہ کیاہے تواسے مرنے کے بعد توڑا جاسکتا ہے بلکہ اسے کا لعدم کرکے اس کی اصلاح کرناضروری ہے، یہ کوئی پختہ لکیر نہیں ہے جسے مٹانا کبیر ہ گناہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہاں جوشخص وصیت کرنے والے کی طرف سے جانب داری یاحق تلفی کااندیشہ رکھتا ہواگر وہ آپس میں ان کی اصلاح کردے ،تواس پرکوئی گناہ نہیں ۔‘‘ [۲/البقرہ:۱۸۲] خودر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے غلط فیصلوں کی ان کے مرنے کے بعد اصلاح فرمائی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک انصاری صحابی کی کل جائیداد چھ غلام تھے ،اس نے وصیت کے ذریعے ان سب کوآزاد کر دیا، اس کے مرنے اورکفن ودفن کے بعد اس کے شرعی ورثا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورحقیقت حال سے آپ کوآگاہ کیا تو آپ نے مرنے والے کو سخت برا بھلا کہا، پھر اس کی وصیت کوکالعدم کرتے ہوئے، ان چھ غلاموں کے متعلق قرعہ اندازی کی جنہیں بذریعہ وصیت آزاد کردیا تھا ،6کا1/3یعنی دوغلام آزاد کردیے اورباقی چارورثا کے حوالے کرکے ان کے نقصان کی تلافی کر دی۔ [صحیح مسلم ، الایمان : ۱۶۶۸] دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس شخص کے متعلق فرمایا: ’’اگرہمیں اس کی حرکت کاپہلے علم ہوجاتا توہم اس کی نماز جنازہ ہی نہ پڑھتے۔‘‘ [مسندامام احمد، ص: ۴۴۳، ج ۴]