کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 285
جائے، تین لڑکوں اور ایک لڑکی کوایک حصہ دے دیا جائے ،اگر بعداز موت تقسیم جائیداد کامسئلہ ہے تواس کی دوصورتیں ہیں : (الف) باپ کی وفات کے وقت اگرمذکورہ اولادزندہ ہوتوان میں جائیداد تقسیم اس طرح ہوگی کہ بیوی کاآٹھواں حصہ نکالنے کے بعد بقیہ سات حصے اولاد میں یوں تقسیم کردیے جائیں کہ لڑکے کودودوحصے اورلڑکی کوایک حصہ دیاجائے ،یعنی کل جائیداد کوآٹھ حصوں میں تقسیم کرلیاجائے ایک حصہ بیوہ کے لئے دودوحصے فی لڑکے اورایک حصہ لڑکی کودے دیاجائے ۔ (ب) ماں کی وفات کے وقت اگرمذکورہ اولاد زندہ ہوتوجائیداد تقسیم اس طرح ہوگی کہ خاوند کا چوتھا حصہ نکالنے کے بعد باقی تین حصے اولاد میں اس طرح تقسیم کر دیے جائیں کہ لڑکے کولڑکی کے حصہ سے دوگناملے ۔صورت مسئولہ میں سہولت کے پیش نظر جائیداد کے کل 28حصے کرلئے جائیں ان کا1/4یعنی سات حصے خاوند کو، پھر چھ چھ حصے ہرلڑکے کواورتین حصے لڑکی کو دیے جائیں۔ پہلی تقسیم : 8/ بیوہ(1) لڑکا (2) لڑکا(2) لڑکا(2) لڑکی (1)8= دوسری تقسیم:8/ خاوند (7) لڑکا (6) لڑکا (6) لڑکا(6) لڑکی (3)= 28 [واللہ اعلم ] سوال: ایک آدمی فوت ہوا اس کی تین بیویاں تھیں متوفی کی اولاد بھی ہے، کیاہرایک بیوی کوآٹھواں حصہ ملے گا یاوہ تمام آٹھویں حصہ کوتقسیم کریں گی نیز ایک بیوی نے آگے نکاح کرلیا ہے کیا اسے بھی حصہ دیا جائے گا؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔ جواب: خاوند کے ترکہ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر تمہاری اولاد ہے توان بیویوں کاآٹھواںحصہ ہے۔‘‘ [۴/النسآء: ۱۲] یعنی تمام بیویاں آٹھویں حصے کوآپس میں تقسیم کریں گی ہرایک کوآٹھواں آٹھواں حصہ نہیں دیاجائے گا، اس طرح اگرکسی بیوی نے عدت گزارنے کے بعد آگے نکاح کرلیاہے تواسے فوت شدہ خاوند کی جائیداد سے محروم نہیں کیاجائے گا۔ نکاح کرنااس کا حق ہے جواس نے حاصل کر لیا ہے۔ اسے فوت شدہ خاوند کی جائیداد سے بھی حصہ ملنا چاہیے ۔ [واللہ اعلم ] سوال: ایک آدمی فوت ہوا پس ماندگان میں اس کی تین لڑکیاں ،بھائی اوربھتیجے زندہ ہیں ان میں ترکہ کیسے تقسیم ہو گا؟ جواب: بشرط صحت سوال میں مرنے والے کی جائیداد سے تین لڑکیوں کودوتہائی ملے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر اولاد میں صرف لڑکیاں ہوں اوروہ دوسے زائد ہوں توان کا ترکہ سے دوتہائی حصہ ہے۔‘‘ [۴ /النسآء:۱۱] لڑکیوں کاحصہ دینے کے بعد باقی ترکہ اس کے بھائی کومل جائے گا اوربھتیجے وغیرہ محروم ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے: ’’مقررہ حصہ دینے کے بعد جو بچ جائے اس کاحق دارقریب ترین رشتہ دار ہے۔‘‘ [صحیح بخاری، الفرائض: ۶۷۳۲] کل جائیداد کے نوحصے کرلئے جائیں، دو تہائی، یعنی چھ حصے بیٹیوں کے ہیں، یعنی ہرایک کودودوحصے دیئے جائیں اورباقی تین حصے بھائی کوملیں گے چونکہ بھتیجوں کارشتہ بھائی کی نسبت دور کاہے، اس لئے بھائی کی موجودگی میں انہیں محروم ہوناہوگا۔ [واللہ اعلم ] سوال: بیوہ، خاوند کی جائیداد تقسیم ہونے سے پہلے آگے نکاح کر لیتی ہے، کیااس صورت میں وہ پہلے خاوند کی جائیداد سے حصہ لے گی؟