کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 281
جواب: بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں لڑکے کی بیوی اورلڑکی کاخاوند براہِ راست زید کی جائیداد سے کوئی حصہ نہیں لے سکتے ،البتہ زید کی وفات کے بعد اس کے بیٹے یابیٹی کوجوحصہ ملے گا اس حصہ سے بیوی 1/4اورخاوند 1/2کاحقدار ہے جس کی تفصیل یوں ہے کہ زید کی جائیداد کے پانچ حصے بنادیئے جائیں۔ دوحصے فی لڑکے اورایک حصہ فی لڑکی کے حساب سے تقسیم کر دیا جائے گویاایک لڑکے کوکل جائیداد کا2/5اورلڑکی کوکل جائیدادکا1/5ملے گا۔اب بیوہ کواپنے خاوند کے حصہ رسدی 2/5سے چوتھائی حصہ دیاجائے گا اسی طرح خاوندکواپنی بیوی کے حصہ رسدی 1/5سے نصف دیاجائے گا چونکہ وراثت کی اصطلاح میں مسئلہ کاتعلق مناسخہ سے ہے جس میں تقسیم درتقسیم ہوتی ہے، اس لئے یہاں دودفعہ تقسیم ہوگی جس کی تفصیل درج ذیل ہے: زید کی وفات کے بعد پہلی تقسیم اس طرح ہوگی کہ بیٹے کوبیٹی کے مقابلہ میں ڈبل حصہ دیا جائے گا، یعنی ہربیٹے کو 2/5 اور بیٹی کو1/5دیاجائے ۔اس کے بعد شادی شدہ بیٹے اوربیٹی کاحصہ دوبارہ تقسیم ہوگا،اس سے بیوہ اورلڑکی کے خاوند کاحصہ نکال کرباقی دوسرے بیٹے کومل جائے گااس دوسری تقسیم کے دواجرا ہیں: (الف) بیٹے کاحصہ جو2/5ہے وہ بیوی اوربھائی کے درمیان تقسیم ہوگا۔ بیوہ کا حصہ 2/5کا2/20=1/4ہے اورباقی6/20=2/20-2/5متوفی کے بھائی کو ملے گا۔واضح رہے کہ بھائی کو اپنے باپ سے بھی 2/5ملاتھا اوراب فوت شدہ بھائی کی جائیداد سے بیوہ کاحصہ نکالنے کے بعد 6/20ملاہے اس طرح اسے 14/20ملا۔ (ب) بیٹی کاحصہ جو1/5ہے وہ اس کے خاوند اوربھائی کے درمیان تقسیم ہوگا۔ خاوند کاحصہ 1/5کا1/2=1/2اورباقی 1/10=1/10-1/5اس کے بھائی کوملے گا۔ سہولت کے پیش نظر ہم زید کی جائیداد کے کل بیس حصے کریں گے جن سے آٹھ ، آٹھ حصے دونوں بیٹوں اورچارحصے بیٹیوں کودیے جائیں گے، پھرفوت شدہ بیٹے کے آٹھ حصوں سے چوتھائی حصہ بیوہ کااورباقی چھ حصے اس کے بھائی کوملیں گے۔ اسی طرح فوت شدہ بیٹی کے چارحصوں سے نصف، یعنی اس کے خاوند کواورباقی دوبھائی کوملیں گے گویامرنے والے کی بیوی کودوحصے مرنے والی کے خاوند کو دوحصے اوربیس حصوں سے باقی سولہ زید کے زندہ بیٹے کوملیں گے ۔ [واللہ اعلم ] سوال: ہماری ایک عزیزہ فوت ہوگئی ہے اس کی تین لڑکیاں اورچچا کی اولاد (لڑکے اورلڑکیاں )موجود ہیں۔ متوفیہ کی جائیداد سے کس کو کتناحصہ ملے گا ؟ جواب: بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں مرحومہ کی جائیداد سے دوتہائی کی حقدار اس کی بیٹیاں ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر اولاد صرف لڑکیاں ہوں (یعنی دویا)دوسے زیادہ توکل ترکہ میں ان کا2/3ہے ۔‘‘ [۴/النسآء :۱۱] لڑکیوں کوان کاحصہ دینے کے بعد جوایک تہائی 1/3باقی ہے اس کی حقدار چچا کی نرینہ اولاد ہے ۔حدیث میں ہے کہ مقرر ہ حصے لینے والے ورثا سے جو ترکہ بچ جائے وہ میت کے قریبی مذکر رشتہ داروں کے لئے ہے ۔ [صحیح بخاری، الفرائض: ۶۷۳۲] سوال میں ذکر کردہ ورثا میں چچا کی نرینہ اولاد ہی مذکر قریبی رشتہ دار ہے، لہٰذا بیٹیوں کودینے کے بعد جوترکہ باقی بچتا ہے وہ انہیں دے دیاجائے۔ سہولت کے پیش نظر میت کی کل منقولہ اورغیرمنقولہ جائیداد کے نوحصے کرلئے جائیں ،ان میں دو ،دوحصے تینوں بیٹیوں اورباقی تین حصے چچا کی نرینہ اولاد کے لئے ہیں۔ چچاکی مادینہ اولاد، یعنی لڑکیوں کواس سے کچھ نہیں ملے گا ۔