کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 280
تھااس فوت شدہ کی اولادبھی اپنی پھوپھی کی جائیداد سے حصہ مانگتی ہے کیابہن بھائی کی موجودگی میں بھتیجے وغیرہ بھی حصہ پاتے ہیں؟ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ۔ جواب: اسلامی ضابطہ وراثت کے مطابق مرحوم کی جائیداد کے تین حصے کردئیے جائیں ،ان میں دوبھائی کواورایک بہن کو دے دیاجائے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’(میت کلالہ ہونے کی صورت میں )اگرکوئی بہن بھائی، یعنی مرداورعورتیں ملے جلے ہوں تومرد کودوعورتوں کے برابرحصہ ملے گا ۔‘‘ [۴/النسآء:۱۷۶] صورت مسئولہ میں مرنے والی عورت کلالہ ہے اس کاایک بھائی اورایک بہن ہے تودرج بالاشرح کے مطابق اس کی جائیداد کوتقسیم کردیا جائے جوبھائی اس کی زندگی میں فوت ہوچکا ہے اسے یااس کی اولاد کومرحومہ کے ترکہ سے کچھ نہیں دیاجائے گا کیونکہ وراثت زندہ موجودلوگوں کوملتی ہے اوراس کی اولاد اس لئے محروم ہے کہ قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں دوروالے محروم رہتے ہیں۔ عورت کے ساتھ بہن بھائی کارشتہ قریبی ہے ان کی موجودگی میں بھتیجے وغیرہ محروم ہیں ۔ [واللہ اعلم ] سوال: ایک آدمی فوت ہوا ،پس ماندگان میں اس کے والدین اوردوبیٹے موجود ہیں اس کاترکہ تین لاکھ روپے ہے یہ ترکہ کیسے تقسیم ہوگا ؟ جواب: اولاد کی موجودگی میں ماں اورباپ دونوں کوچھٹا چھٹا حصہ ملتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگرمیت کی اولاد بھی ہو تووالدین میں سے ہرایک کاچھٹا حصہ ہے ۔‘‘ [۴/النساء :۱۱] اس صورت میں ماں اورباپ دونوں کاحصہ برابر ہوگا انہیں دینے کے بعد جوباقی بچے گا وہ میت کے قریبی مذکررشتہ دار کو دیا جائے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے : ’’جن ورثا کے حصے مقررہیں ان کاحصہ دینے کے بعد جوباقی بچے وہ میت کے قریبی مذکررشتہ دار وں کودیاجائے ۔‘‘ [صحیح بخاری ،الفرائض :۶۷۳۵] ماں اورباپ کوچھٹا چھٹا حصہ دینے کے بعد باقی 2/3بیٹوں کودیاجائے گا۔ سہولت کے پیش نظر جائیداد کوچھ حصوں میں تقسیم کردیاجائے ۔ان میں سے ایک حصہ باپ اورایک حصہ ماں کودیاجائے باقی چارحصے بیٹوں کو دیے جائیں، یعنی پچاس ہزار باپ کواورپچاس ہزار ماں کو۔ایک لاکھ ایک بیٹے کوایک لاکھ دوسرے بیٹے کو دیاجائے گا، اس تفصیل کے مطابق تین لاکھ روپے تقسیم کیے جائیں گے۔ [واللہ اعلم ] سوال: زیدنامی ایک شخص اپنے پیچھے دوبیٹے اورایک بیٹی چھوڑکر فوت ہوا ،ان میں سے ایک لڑکے اورلڑکی کی شادی کردی گئی، زید کی جائیدادتقسیم ہونے سے پہلے شادی شدہ بیٹا اور بیٹی کسی حادثہ میں لاولدفوت ہوگئے ،اب دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ لڑکے کی بیوی اورلڑکی کے خاوند کوزید کی جائیداد سے کوئی حصہ ملے گا جبکہ لڑکے کی بیوی نے آگے شادی کرلی ہے قرآن وحدیث کے مطابق فتویٰ درکار ہے؟