کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 279
ہوتے ہیں۔ صورت مسئولہ میں جوبیٹا اوربیٹی وفات پاچکے ہیں وہ کسی صورت میں باپ کی جائیداد کے حقدار نہیں ہیں۔ اس طرح اس کے پوتے پوتیاں اورنواسے نواسیاں بھی وراثت سے حصہ نہیں پائیں گے کیونکہ اس سے زیادہ قرابت رکھنے والے دوبیٹے موجود ہیں۔لہٰذااگر باپ فوت ہوجائے توموجودہ حالات کے پیش نظر صرف اس کے بیٹے وارث ہوں گے ۔ [واللہ اعلم] سوال: میرے والد گرامی پچھلے دنوں ایک حادثہ میں فوت ہوگئے ہیں پس ماندگان میں سے ہماری والدہ ہم تین بھائی اورایک بہن ہے والد کاترکہ کیسے تقسیم ہو گا؟ جواب: بشرط صحت سوال خاوند کے فوت ہونے کے بعد اگراس کی اولاد موجود ہے تو بیوہ کوآٹھواں حصہ ملتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اوراگرتمہاری اولاد ہے توبیویوں کے لئے آٹھواں حصہ ہے ۔‘‘ [۴/النسآء:۱۲] بیوہ کواس کامقرر ہ حصہ دینے کے بعد باقی سات حصے مرحوم کی اولاد میں اس طرح تقسیم کئے جائیں گے کہ بیٹے کوبیٹی کے مقابلہ میں دگنا حصہ ملے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مرد کاحصہ دوعورتوں کے برابرہوگا۔‘‘ [۴/النسآء :۱۱] سہولت کے پیش نظر مرحوم کے ترکہ کوآٹھ حصوں میں تقسیم کردیا جائے ،ایک حصہ بیوہ کے لئے اوردوحصے ہرلڑکے کوپھرایک حصہ لڑکی کودے دیا جائے، مثلاً: اگرکل ترکہ آٹھ لاکھ ہے توایک لاکھ بیوہ کودو،دولاکھ ہربیٹے کواورایک لاکھ بیٹی کو ملے گا۔ [واللہ اعلم ] سوال: ایک آدمی نے دوعورتوں سے نکاح کیا لیکن کسی سے اولاد نہیں ہوئی ،سوئے اتفاق سے اس نے دونوں کوطلاق دے دی ، اس کی دکانیں اورمکان ہے اس کاکہنا ہے کہ زندگی بھر میں اس مکان میں رہائش رکھوں گااوردکانوں کاکرایہ وصول کروں گا اس کے بعد کسی مدرسہ یامسجد کے لئے وقف ہوں گی جبکہ اس کے بھائی اوربہنیں بقید حیات ہیں، کیاشرعاًوہ ایساکرسکتا ہے؟ جواب: خاوند کااپنی بیویوں کواس بنا پر طلاق دینا توصحیح نہیں ہے کہ ان سے کوئی اولاد پیدانہیں ہوئی کیونکہ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں بلکہ ایسے معاملات سب اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔اس کازندگی کے بعد کل ترکہ (مکان ودکانات )کاوقف کرنابھی صحیح نہیں ہے کیونکہ حدیث میں اس کی ممانعت ہے ۔چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! میں ایک مالدارآدمی ہوں اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے توکیامیں دوتہائی مال صدقہ کردوں؟آپ نے فرمایا ’’نہیں‘‘ انہوں نے دوبارہ عرض کیا کہ میں اپنے مال کانصف خیرات کردوں ،آپ نے فرمایا: ’’نہیں‘‘ انہوں نے تیسری مرتبہ عرض کیا تو کہا میں ایک تہائی مال صدقہ کرسکتا ہوں ،آپ نے فرمایا: ’’ہاں، ایک تہائی صدقہ کرسکتے ہو، مگرایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے تیرااپنے ورثا کو غنی چھوڑ جانا اس سے کہیں بہتر ہے کہ توان کومحتاج چھوڑ جائے اوروہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں وہ انہیں دیں یانہ دیں۔‘‘ [صحیح بخاری ، حدیث نمبر:۱۲۵۹] حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کاش! لوگ وصیت کوثلث سے ربع تک کم کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ثلث بھی بہت زیادہ ہے ۔ [صحیح بخاری ،الوصایا :۲۷۴۳] سوال: ایک عورت فوت ہوئی تواس کے ورثا میں ایک بھائی اورایک بہن ہے ایک بھائی اس کی زندگی میں ہی فوت ہوگیا