کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 278
میں والد کی وفات سے پہلے فوت ہونے والی بیٹی یااس کی موجودہ اولاد وارث نہیں ہوگی۔ ہاں، مرحوم وصیت کے ذریعے اپنے نواسے یانواسیوں کودے سکتا تھا اوروہ بھی کل جائیداد سے 1/3تک جائز ہے اس کے علاوہ کسی صورت میں مرحوم کی جائیداد سے انہیں حصہ نہیں مل سکتا ۔مرحوم کی اولاد اگر چاہے توانہیں کچھ دے سکتی ہے یہ ان کی اپنی صوابدیدپرموقوف ہے واضح رہے کہ موجودہ پس ماندگان اس طرح جائیدادتقسیم کریں کہ لڑکے کولڑکی سے دوگنا حصہ ملے ۔سہولت کے پیش نظر جائیداد کے کل چھ حصے کرلئے جائیں ۔دو،دوحصے فی لڑکا اور ایک، ایک فی لڑکی تقسیم کردیا جائے ۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے ’’پوتے کووراثت اس وقت ملتی ہے جب بیٹا موجودنہ ہو۔‘‘پھر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کاقول نقل کیا ہے کہ پوتا بیٹے کی موجودگی میں وارث نہیں ہوتا ۔ [صحیح بخاری ،کتاب الفرائض ] اسی طرح بیٹوں اوربیٹیوں کی موجودگی میں کسی بھی بیٹی کی اولاد محروم ہوتی ہے، خواہ وہ بیٹی زندہ ہویامرحوم سے پہلے فوت چکی ہو، لہٰذا نواسیاں نواسے اپنے نانا کی جائیداد کے کسی صورت میں حقدار نہیں ہیں ۔ [واللہ اعلم ] سوال: ایک شخص کی وفات کے وقت اس کے تین بھتیجے اورایک نواسی زندہ تھی۔ وراثت اس کے بھتیجوں کومل گئی، کافی عرصہ بعد اس کی نواسی نے عدالت میں دعویٰ کردیا ہے کہ نانا کی وراثت میں میرا حق ہے۔ قرآن وحدیث کے مطابق بتایا جائے کہ نواسی کوکچھ حصہ ملتا ہے یانہیں؟۔ جواب: قرآن کریم کے ضابطۂ وراثت کے مطابق میت کی جائیداد کے سب سے پہلے حقدار وہ ورثا ہیں جن کے حصص قرآن یاحدیث میں مقررہیں جنہیں اصحاب الفروض کہاجاتا ہے۔ ان سے بچاہوا ترکہ عصبات کوملتا ہے۔ صورت مسئولہ میں نواسی نہ تواصحاب الفروض سے ہے اورنہ ہی عصبات میں اس کاشمار ہوتا ہے بلکہ نواسی ذوی الارحام میں شامل ہے جواصحاب الفروض اورعصبات کی عدم موجودگی میں وارث ہوتے ہیں۔ مرحوم کی وفات کے وقت اس کے بھتیجے زندہ تھے ۔ایسے حالات میں اس کی جائیداد کے وہ وارث ہیں کیونکہ ان کاشمار عصبات میں ہوتا ہے۔ ان کی موجودگی میں نواسی محروم ہے، لہٰذااس کاعدالت میں دعویٰ کرنادرست نہیں ہے اورنہ ہی اسے مرحوم کی بیٹی کے قائم مقام سمجھ کر وراثت کاحقدار قراردیاجاسکتا ہے ۔حدیث میں ہے کہ ’’حصے داروں کوحصہ دینے کے بعد میت کے قریبی مذکررشتہ داروارث بنتے ہیں۔‘‘ اس حدیث کے پیش نظر بھتیجے قریبی مذکر رشتہ دارہیں جووراثت کے حقدارہوں گے نواسی ان میں شامل نہیں ہے، اس بنا پر ناناکی جائیدادسے اس کا کوئی حق نہیں بنتا ۔ [واللہ اعلم ] سوال: ایک آدمی بقید حیات ہے اور اس کے دوبیٹے بھی زندہ ہیں جبکہ اس کاایک بیٹا اوربیٹی فوت ہوچکے ہیں ان فوت شدگان کی نرینہ اورمادینہ اولادموجود ہے کیااس آدمی کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں کی موجودگی میں اس کے پوتے، پوتیاں، نواسے اورنواسیاں اس کی جائیداد کے حقدار ہیں اگر ہیں تووہ کس قدر حصہ پائیں گے؟۔ جواب: اسلام کے نظام وراثت کاقاعدہ ہے کہ وفات کے وقت جو قریبی ورثا زندہ ہوں انہیں مرحوم کی جائیداد سے حصہ ملتا ہے اورجورشتہ داراس کی زندگی میں وفات پاچکے ہیں یا وفات کے وقت قریبی رشتہ دار موجودہوں تودور کی قرابت رکھنے والے محروم