کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 276
کئے ہیں انہیں دیانت داری کے ساتھ ظاہر کیا جائے۔ ٭ و الدمحترم نے زندگی میں جوکہاتھا کہ اس مکان میں وہی شریک ہوگا جس نے اس کے اخراجات برداشت کئے ہیں، یہ صحیح نہیں ہے اسے کسی صورت میں بنیاد نہ بنایاجائے۔ ٭ بہنوں کی شادیوں پرجواخراجات ہوئے ہیں انہیں مکان کی مجموعی قیمت سے منہانہ کیاجائے ،یہ ایک ذمہ داری تھی جسے ادا کیا گیا ہے ۔ [ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب] سوال: میرا داماد فوت ہوگیا ہے۔ اس کی جائیداد صرف ایک مکان ہے جس کی مالیت تقریباًچارلاکھ ہے۔ پس ماندگا ن میں بیوہ ،ایک بیٹا ،دوبیٹیاں اورباپ موجود ہے۔ کتاب وسنت کی روشنی میں کس وارث کو کتنا حصہ ملے گا؟ جواب: قرآن میں بیان کردہ ضابطہ میراث کے مطابق بیوہ کوآٹھواں حصہ ،باپ کو چھٹا حصہ پھرباقی جائیداد اولاد میں اس طرح تقسیم کردی جائے کہ بیٹے کوبیٹی سے دوگنا حصہ ملے ۔صورت مسئولہ میں مرحوم کی کل جائیداد کے 96حصے کرلئے جائیں، ان میں بیوہ کا1/8یعنی 12حصے اورباپ کاحصہ 1/6یعنی 16حصے، پھرباقی جائیداد سے 34حصے بیٹے کواور17,17حصے دونوں بیٹیوں کومل جائیں گے ۔چونکہ مکان کی مالیت چارلاکھ روپے ہے، اس لئے حسب ذیل شرح سے یہ رقم تقسیم کرلی جائے : بیوہ:400000کا50000=1/8روپے (پچاس ہزارروپے ) باپ :400000کا66666.66=1/6روپے (چھیاسٹھ ہزار چھ صد چھیاسٹھ روپے چھیاسٹھ پیسے ) باقی :283333.34=116666.66-400000 بیٹے کاحصہ :141666.66(ایک لاکھ اکتالیس ہزار چھ صد چھیاسٹھ روپے چھیاسٹھ پیسے ) ایک بیٹی کاحصہ :70833.34(سترہزار آٹھ صد تینتیس روپے چونتیس پیسے ) دوسری بیٹی کاحصہ :70833.34(سترہزار آٹھ صد تینتیس روپے چونتیس پیسے ) [واللہ اعلم بالصواب] سوال: ایک شخص فوت ہوا،پس ماندگان میں سے والدہ ،ایک حقیقی بھائی اوریتیم بھتیجے زندہ ہیں۔ وفات کے کچھ عرصہ بعد اس کی والدہ بھی فوت ہوگئیں ،اب اس کی جائیداد کیسے تقسیم ہوگی ۔کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ اس کی جائیداد سے یتیم بھتیجوں کوحصہ ملے گا یا نہیں؟ جواب: بشرط صحت سوال واضح ہو کہ صورت مسئولہ میں فوت ہونے والے کاحقیقی بھائی عصبہ ہونے کی حیثیت سے اس کی کل جائیداد کاوارث ہوگا۔ یتیم بھتیجوں کوبھائی کی موجودگی میں کچھ نہیں ملتا کیونکہ بھتیجوں کے مقابلہ میں بھائی کارشتہ سب سے زیادہ قریبی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس کاترکہ پہلے اس کی والدہ اوربھائی کے درمیان تقسیم ہوگا چونکہ والدہ بھی فوت ہوچکی ہے، اس لئے فوت شدہ بیٹے کی جائیداد سے ملنے والاحصہ بھی زندہ بیٹے کومنتقل ہوجائے گا ،یعنی پہلے اسے بھائی کی جائیداد سے حصہ ملا ،پھرباقی ماندہ والدہ کی جائیدادسے مل گیا، اسی طرح میت کابھائی اپنے فوت شدہ بھائی کی کل جائیداد کامالک ہوگا۔ جائیداد حاصل کرنے میں اور کوئی رشتہ داراس میں شریک نہیں ہے ،چونکہ بیماری کے دوران یتیم بھتیجوں نے اس کی خدمت کی ہے، اس لئے بہتر ہے کہ ان کی