کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 270
نوٹ: اگرکوئی عورت خاوند کی وفات کے بعد عقد ثانی کرلیتی ہے تواس کاپہلے خاوند کی اولاد سے جواس کے بطن سے پیداہوئی ہواس سے رشتہ منقطع نہیں ہوجاتا ۔اسی طرح دوسرے خاوند سے پیدا ہونے والی اولاد کاپہلے خاوند کی اولاد سے مادری رشتہ قائم رہتا ہے ۔ [واللہ اعلم ] سوال: ہم چاربھائی اورتین بہنیں ہیں۔ والدہ فوت ہوچکی ہے۔ والدمحترم نے اپنی زندگی میں ہمیں مختلف مالیت کے پلاٹ خرید کردیئے ہیں جبکہ بہنوں کوکچھ نہیں دیا ،پلاٹوں کی تفصیل حسب ذیل ہے : 1۔ محمدعثمان کے پاس 300فٹ کامکان ہے جس کی قیمت دولاکھ روپے ہے۔ 2۔ عبدالستار کے پاس کمرشل پلاٹ ہے جس کی مالیت 12لاکھ روپے ہے۔ 3۔ سیف اللہ کے پاس پلاٹ اوردوکان ہے جس کی مجموعی قیمت 10لاکھ روپے ہے ۔ 4۔ ثناء اللہ کے پاس ایک پلاٹ ہے جس کی قیمت 5لاکھ روپے ہے ۔ والد صاحب اپنی زندگی میں فرماتے تھے کہ جس کے پاس پلاٹ ہے وہ اس کامالک ہے کیایہ تقسیم قرآن و سنت کے مطابق ہے؟ جبکہ ہم اس تقسیم پرمطمئن نہیں ہیں؟ جواب: اللہ تعالیٰ آپ کے والدمحترم کومعاف فرمائیں انہوں نے اپنی زندگی میں دوکام خلاف شریعت کئے ہیں۔ اپنی بیٹیوں کومحروم کرنااوربیٹوں کے درمیان غیر منصفانہ تقسیم ،کوئی انسان بھی اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کوبطوروراثت تقسیم کرنے کامجاز نہیں ہے کیونکہ وراثت مرنے کے بعد تقسیم ہوتی ہے ۔اپنی زندگی میں والداپنی اولاد کوجوکچھ دیتا ہے اس کی حیثیت ہبہ اور عطیہ کی ہے۔ اس کے لیے بنیادی طورپر شرط یہ ہے کہ بیٹوں کومساویانہ حصہ دیاجائے ،بیٹیوں کومحروم کرنا، پھر بیٹوں کے درمیان غیرمساویانہ تقسیم کی صورت میں صحیح نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ مجھے میرے والد نے عطیہ دیا ہے۔ میری والدہ نے اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوگواہ بنانے کے متعلق کہاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے توآپ نے فرمایا:’’کیا تو نے اپنی تمام اولاد کواتناعطیہ دیا ۔‘‘عرض کیا، نہیں، اس پرآپ نے فرمایا: ’’میں ظلم پرگواہی نہیں دیتا ،اللہ تعالیٰ سے ڈرو اوراپنی اولاد کے درمیان عدل کیاکرو ،اس کے بعد اس نے یہ عطیہ واپس لے لیا۔‘‘ [صحیح بخاری ،الھبہ :۲۵۸۷] اس حدیث کے پیش نظر مسئولہ صورت میں شرعی حل یہ ہوگا کہ باپ نے اپنی زندگی میں جوکچھ کسی کودیا ہے اسے اکٹھا کر لیا جائے، پھراسے سات حصوں میں تقسیم کرکے مساوی رقم ہر بیٹے اور بیٹی کو دی جائے۔ مرحوم نے چاروں بیٹوں کوجودیا ہے اس کی مالیت 2900000/ انتیس لاکھ ہے اس کو سات حصوں میں تقسیم کرنے سے ایک حصہ 414285.71بنتا ہے ہرایک لڑکے اورلڑکی کواتنادیاجائے، جس کے پاس قیمتی پلاٹ ہے وہ اپنی طرف سے رقم دے کرحساب برابر کرے ۔دوسری صورت شرعی وراثت کی ہے کہ موجودہ مالیت کو بیٹے کے لئے دو حصے اوربہن کے لئے ایک حصہ ،اس حساب سے تقسیم کی جائے ۔اس صورت میں اسے گیارہ پرتقسیم کیاجائے، اس طرح ایک حصہ 263636.36روپے بنتا ہے، یہ ایک لڑکی کودیاجائے، پھراسے ڈبل کرکے یعنی