کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 263
اور بالآخر جہنم میں جاناپڑے، اس لئے مشترکہ کاروبار کرنے والوں کو مندرجہ بالا وضاحت کوذہن میں رکھنا چاہیے وگرنہ اندیشہ ہے کہ قیامت کے دن ناانصافیوں کی وجہ سے ناکامی کاسامناکرناپڑے گا۔ [واللہ اعلم ] سوال: بکرنے زید کی دکان سے مبلغ دولاکھ روپیہ کی مختلف اجناس خریدیں اورادائیگی نہ کی ،زید پانچ برس تک اپنی رقم کامطالبہ کرتا رہا۔ بالآخرتنگ آکر زید نے بکرکے خلاف دعویٰ دائر کردیا عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ بکر دولاکھ روپے ادا کرنے تک 14 فیصد تک بنک منافع کے مطابق مزید ادا کرے، یعنی اصل رقم کے علاوہ مذکورہ شرح کے مطابق ’’منافع ‘‘بھی ادا کرے گا، اب کیا مدعی اپنی اصل رقم کے ساتھ عدالت کی جاری کردہ ڈگری کے مطابق مدعا علیہ سے زیادہ رقم وصول کرسکتا ہے یانہیں؟ کتاب وسنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔ جواب: واضح رہے کہ صاحب حیثیت کا دوسروں کے واجبات کی ادائیگی میں دانستہ ٹال مٹول کرناصریح ظلم ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مالدار کاواجبات کی ادائیگی میں دانستہ دیر کرناصریح زیادتی ہے۔‘‘ [ بخاری، کتاب الحوالات: ۲۲۸۷] حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایسے انسان کو بے عزت کر کے سزا کے طور پر قید بھی کیا جاسکتا ہے۔ [صحیح بخاری، کتاب الاستقراض تعلیقاً باب: ۱۳] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ’’صاحب حق اپنا حق وصول کرنے کے لیے سختی سے کام لے سکتا ہے۔‘‘ [صحیح بخاری، ۲۴۰۱] صورت مسئولہ میں ایک شخص عرصۂ دراز سے رقم کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے، صاحب حق نے اپنا حق وصول کرنے کے لئے عدالت سے رجوع کیااس پر جواخراجات اٹھے ہیں اس کا باعث بھی وہی ہے۔ جس کے ذمہ واجبات کی ادائیگی ہے، اس لئے عدالت کے فیصلہ کے مطابق زید اپنی اصل رقم سے زائد وصول کرسکتا ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں حق کی وصولی کے لئے جورقم خرچ ہوئی ہے وہی وصول کر نے کامجاز ہے ۔اس سے زائد رقم وصول کرنے کا حق دار نہیں ہے۔ دراصل یہ ایک تاوان ہے جودیرکرنے کی وجہ سے اس پرڈالاگیا ہے اورصاحب حق کی ایک دادرسی کی صورت ہے جس کی خاطر وہ ذہنی طورپر پریشان رہا، نیز یہ رقم ’’سود‘‘کے زمرہ میں نہیں آتی اگرچہ ظاہر ی طورپر ایسا نظر آتا ہے لیکن حقیقت اس کے خلاف ہے ۔ [واللہ اعلم ] سوال: مختلف کمپنیوں کے موبائل کارڈ مارکیٹ میں مختلف قیمتوں پردستیاب ہوتے ہیں بعض کمپنیاں ٹیکس وصول کرتی ہیں، پھردکاندار اصل قیمت سے زیادہ پر آگے فروخت کرتے ہیں کمپنی کاٹیکس وصول کرنااوردکاندار کااصل قیمت سے زائد فروخت کرناکہاں تک درست ہے کیااس میں سود کااندیشہ تونہیں ہے؟ جواب: موبائل یادوسرے کالنگ کارڈ کامعاملہ یوں ہے کہ وہ حکومت سے یونٹ خریدتے ہیں، پھرانہیں صارفین کو فروخت کرتے ہیں۔ گورنمنٹ کمپنی سے فروخت کرنے پر تقریباً9% ٹیکس وصول کرتی ہے اسے سیل ٹیکس کہا جاتا ہے۔ جو ہر فروخت ہونے والی چیز پرلگایا گیا ہے۔ہمارے نزدیک حکومت کایہ اقدام شرعاًدرست نہیں ہے۔ بہرحال کمپنی یا صارفین مجبور ہیں جو اس ٹیکس کوادا کرتے ہیں ۔کمپنی اس ٹیکس کوصارفین کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ 100کے کارڈ میں 90.90 روپے ہوتے ہیں چونکہ یہ نقدی کی خریدوفروخت نہیں ہے کہ اس میں کمی بیشی ناجائز ہوبلکہ یونٹ فروخت اورخریدے جاتے ہیں، لہٰذا اس میں کمی بیشی